صحيح البخاري
كِتَاب الصَّوْمِ -- کتاب: روزے کے مسائل کا بیان
52. بَابُ صَوْمِ شَعْبَانَ:
باب: ماہ شعبان میں روزے رکھنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1970
حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ فَضَالَةَ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا حَدَّثَتْهُ، قَالَتْ:" لَمْ يَكُنِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُ شَهْرًا أَكْثَرَ مِنْ شَعْبَانَ، فَإِنَّهُ كَانَ يَصُومُ شَعْبَانَ كُلَّهُ، وَكَانَ يَقُولُ: خُذُوا مِنَ الْعَمَلِ مَا تُطِيقُونَ، فَإِنَّ اللَّهَ لَا يَمَلُّ حَتَّى تَمَلُّوا، وَأَحَبُّ الصَّلَاةِ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا دُووِمَ عَلَيْهِ وَإِنْ قَلَّتْ، وَكَانَ إِذَا صَلَّى صَلَاةً دَاوَمَ عَلَيْهَا.
ہم سے معاذ بن فضالہ نے بیان کیا، ان سے ہشام نے بیان کیا، ان سے یحییٰ نے، ان سے ابوسلمہ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شعبان سے زیادہ اور کسی مہینہ میں روزے نہیں رکھتے تھے، شعبان کے پورے دنوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزہ سے رہتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ عمل وہی اختیار کرو جس کی تم میں طاقت ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ (ثواب دینے سے) نہیں تھکتا۔ تم خود ہی اکتا جاؤ گے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس نماز کو سب سے زیادہ پسند فرماتے جس پر ہمیشگی اختیار کی جائے خواہ کم ہی کیوں نہ ہو۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی نماز شروع کرتے تو اسے ہمیشہ پڑھتے تھے۔
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 43  
باب اور حدیث میں مناسبت:
➊حدیث میں جو الفاظ وارد ہوئے ہیں «الدين» کے اور دین سے مراد یہاں عمل کے ہیں کیوں کہ اعتقاد کو ترک کرنا کفر ہے اور دین اور ایمان ایک ہی چیز ہے تو ایمان بھی عمل ہوا اور عمل ہی مقصود ہے اس باب میں۔ [ديكهيے فتح الباري ج1 ص 136]
➋ دوسری مناسبت یہ ہے کہ بندہ مشقت سے جو عمل کرتا ہے اس پر دوام نہیں رکھ سکتا اور وہ جلد ہی اس عمل کو چھوڑ دیتا ہے اور جو مکمل نشاط اور توجہ سے عمل کرتا ہے تو اس پر وہ دوام اختیار کرتا ہے لہٰذا جو کام دل کی گہرائی اور دوام کے ساتھ ہو وہ یقیناً جنت کے حصول کا سبب بنتا ہے اور یقیناً جنت میں دین پر عمل کرنا ہی لے جاتا ہے یہاں سے بھی باب اور حدیث میں مناسبت ظاہر ہوتی ہے۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 96   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 20  
´ایمان کا تعلق دل سے ہے`
«. . . كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَمَرَهُمْ، أَمَرَهُمْ مِنَ الْأَعْمَالِ بِمَا يُطِيقُونَ، قَالُوا: إِنَّا لَسْنَا كَهَيْئَتِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ اللَّهَ قَدْ غَفَرَ لَكَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو کسی کام کا حکم دیتے تو وہ ایسا ہی کام ہوتا جس کے کرنے کی لوگوں میں طاقت ہوتی (اس پر) صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ہم لوگ تو آپ جیسے نہیں ہیں (آپ تو معصوم ہیں) اور آپ کی اللہ پاک نے اگلی پچھلی سب لغزشیں معاف فرما دی ہیں . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 20]

تشریح:
اس باب کے تحت بھی امام بخاری رحمہ اللہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ایمان کا تعلق دل سے ہے اور دل کا یہ فعل ہر جگہ یکساں نہیں ہوتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب کی ایمانی کیفیت تمام صحابہ رضی اللہ عنہم اور ساری مخلوقات سے بڑھ کر تھی۔ یہاں حضرت امام بخاری مرجیہ کے ساتھ کرامیہ کے قول کا بطلان بھی ثابت کرنا چاہتے ہیں جو کہتے ہیں کہ ایمان صرف قول کا نام ہے اور یہ حدیث ایمان کی کمی و زیادتی کے لیے بھی دلیل ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان «انااعلمكم بالله» سے ظاہر ہے کہ علم باللہ کے درجات ہیں اور اس بارے میں لوگ ایک دوسرے سے کم زیادہ ہو سکتے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس معاملہ میں جمیع صحابہ رضی اللہ عنہم بلکہ تمام انسانوں سے بڑھ چڑھ کر حیثیت رکھتے ہیں۔ بعض صحابی آپ سے بڑھ کر عبادت کرنا چاہتے تھے۔ آپ نے اس خیال کی تغلیط میں فرمایا کہ تمہارا یہ خیال صحیح نہیں۔ تم کتنی ہی عبادت کرو مگر مجھ سے نہیں بڑھ سکتے ہو اس لیے کہ معرفت خداوندی تم سب سے زیادہ مجھ ہی کو حاصل ہے۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عبادت میں میانہ روی ہی اللہ کو پسند ہے۔ ایسی عبادت جو طاقت سے زیادہ ہو، اسلام میں پسندیدہ نہیں ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ ایمان معرفت رب کا نام ہے اور معرفت کا تعلق دل سے ہے۔ اس لیے ایمان محض زبانی اقرار کو نہیں کہا جا سکتا۔ اس کے لیے معرفت قلب بھی ضروری ہے اور ایمان کی کمی و بیشی بھی ثابت ہوئی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 20   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1970  
1970. حضرت عائشہ ؓ ہی سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ شعبان کے مہینے سے زیادہ کسی اور مہینے میں نفلی روزے نہیں رکھتے تھے بلکہ آپ سارا شعبان روزے رکھتے تھے اور فرمایا کرتے تھے: اے لوگو!اتنی ہی عبادت کرو جو قابل برداشت ہوکیونکہ اللہ تعالیٰ ثواب دینے سے نہیں تھکتا یہاں تک کہ تم خود عبادت کرنے سے اکتا جاؤ گے۔ نبی کریم ﷺ کو وہی نماز پسند تھی جو اگرچہ تھوڑی ہو مگر پابندی سے ادا ہو، چنانچہ آپ ﷺ جب کوئی نماز پڑھتے تو اس پر ہمیشگی کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1970]
حدیث حاشیہ:
اگرچہ اورمہینوں میں بھی آپ ﷺ نفل روزے رکھا کرتے تھے مگر شعبان میں زیادہ روزے رکھتے کیوں کہ شعبان میں بندوں کے اعمال اللہ کی طرف اٹھائے جاتے ہیں۔
نسائی کی روایت میں یہ مضمون موجود ہے۔
(وحیدی)
واللہ أعلم
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1970   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 763  
´نمازی اور امام کے درمیان پردہ حائل ہونے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک چٹائی تھی جسے آپ دن میں بچھایا کرتے تھے، اور رات میں اس کو حجرہ نما بنا لیتے اور اس میں نماز پڑھتے، لوگوں کو اس کا علم ہوا تو آپ کے ساتھ وہ بھی نماز پڑھنے لگے، آپ کے اور ان کے درمیان وہی چٹائی حائل ہوتی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اتنا ہی) عمل کرو جتنا کہ تم میں طاقت ہو، کیونکہ اللہ تعالیٰ ثواب دینے سے نہیں تھکے گا البتہ تم (عمل سے) تھک جاؤ گے، اللہ تعالیٰ کے نزدیک محبوب ترین عمل وہ ہے جس پر مداومت ہو گرچہ وہ کم ہو، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ جگہ چھوڑ دی، اور وہاں دوبارہ نماز نہیں پڑھی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو وفات دے دی، آپ جب کوئی کام کرتے تو اسے جاری رکھتے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب القبلة/حدیث: 763]
763 ۔ اردو حاشیہ:
➊ چٹائی کو کھڑا کر کے حجرہ سا بنانا لوگوں کی مداخلت روکنے اور خلوت مہیا کرنے کے لیے تھا کیونکہ خلوت خشوع و خضوع میں معاون ہے۔
➋ کوئی نیک کام شروع کر کے چھوڑ دینا زیادہ برا ہے بجائے اس کے کہ شروع ہی نہ کیا جائے کیونکہ چھوڑنے میں اعراض ہے، البتہ اگر کبھی کبھار نیند، سستی یا مصروفیت کی بنا پر وہ رہ جائے تو کوئی حرج نہیں بلکہ اس کا ثواب لکھا جاتا ہے، بشرطیکہ مستقل نہ چھوڑے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 763   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4238  
´نیک کام کو ہمیشہ کرنے کی فضیلت کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میرے پاس ایک عورت (بیٹھی ہوئی) تھی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے، اور پوچھا: یہ کون ہے؟ میں نے کہا: یہ فلاں عورت ہے، یہ سوتی نہیں ہے (نماز پڑھتی رہتی ہے) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ٹھہرو! تم پر اتنا ہی عمل واجب ہے جتنے کی تمہیں طاقت ہو، اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ نہیں اکتاتا ہے یہاں تک کہ تم خود ہی اکتا جاؤ۔‏‏‏‏ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ عمل وہ تھا جس کو آدمی ہمیشہ پابندی سے کرتا ہے۔‏۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4238]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
طاقت سے زیادہ عبادت کرنا منع ہے۔
کیونکہ ا س کے بعد میں اکتاہٹ ہوجاتی ہے۔
اور خطرہ ہوتا ہے کہ انسان عبادت بالکل ہی ترک کردے۔

(2)
ہمیشگی والے عمل کا مجموعی ثواب زیادہ ہوجاتا ہے۔
اس لئےوہ افضل ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4238   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1370  
´نماز میں میانہ روی اختیار کرنے کا حکم ہے۔`
علقمہ کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کا حال کیسا تھا؟ کیا آپ عمل کے لیے کچھ دن خاص کر لیتے تھے؟ انہوں نے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر عمل مداومت و پابندی کے ساتھ ہوتا تھا اور تم میں کون اتنی طاقت رکھتا ہے جتنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رکھتے تھے؟۔ [سنن ابي داود/أبواب قيام الليل /حدیث: 1370]
1370. اردو حاشیہ: فائدہ: ہمیشگی اسی عمل پر ہوسکتی ہے جو افراط و تفریط سے ہٹ کر اعتدال پر مبنی ہو، اور مداومت اختیار کرنا ہی سب سے بڑی ریاضت ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1370   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1970  
1970. حضرت عائشہ ؓ ہی سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ شعبان کے مہینے سے زیادہ کسی اور مہینے میں نفلی روزے نہیں رکھتے تھے بلکہ آپ سارا شعبان روزے رکھتے تھے اور فرمایا کرتے تھے: اے لوگو!اتنی ہی عبادت کرو جو قابل برداشت ہوکیونکہ اللہ تعالیٰ ثواب دینے سے نہیں تھکتا یہاں تک کہ تم خود عبادت کرنے سے اکتا جاؤ گے۔ نبی کریم ﷺ کو وہی نماز پسند تھی جو اگرچہ تھوڑی ہو مگر پابندی سے ادا ہو، چنانچہ آپ ﷺ جب کوئی نماز پڑھتے تو اس پر ہمیشگی کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1970]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت ام سلمہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؓ سال بھر کسی پورے مہینے کے نفلی روزے نہیں رکھتے تھے، صرف ماہ شعبان میں پورے مہینے کے روزے رکھتے اور اسے رمضان کے ساتھ ملا دیتے تھے۔
(مسندأحمد: 311/6)
اس روایت کا مطلب ہے کہ اس مہینے میں کثرت سے نفلی روزے رکھا کرتے تھے۔
صحیح مسلم میں ہے کہ آپ شعبان کے چند ایام کے علاوہ پورے مہینے کے روزے رکھتے تھے۔
(صحیح مسلم، الصیام، حدیث: 2722(1156)
ایک روایت میں اس کی مزید وضاحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب سے مدینہ طیبہ تشریف لائے رمضان کے علاوہ کسی مہینے کے پورے روزے نہیں رکھتے تھے۔
(فتح الباري: 272/4)
بعض علماء نے ان روایات کے ظاہر سے استدلال کرتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ شعبان کے پورے مہینے کے روزے بھی رکھے جا سکتے ہیں۔
روایات میں اكثر شهر اور كل شهر کی تطبیق يوں ہے کہ کبھی آپ ﷺ پورے ماہ کے روزے رکھتے اور کبھی کچھ روزے ترک کر دیتے۔
جن روایات میں رمضان سے ایک دو دن قبل روزہ رکھنے کی ممانعت ہے تو وہ اس صورت میں ہے جب صرف دو تین روزے استقبال رمضان کے طور پر رکھے جائیں۔
(2)
ایک روایت میں ہے کہ رمضان کے بعد سب سے افضل روزے ماہ شعبان کے ہیں۔
(جامع الترمذي، الزکاة، حدیث: 663)
لیکن یہ روایت ضعیف ہے۔
علامہ البانی ؒ نے اس روایت کو ناقابل حجت قرار دیا ہے۔
(إرواءالغلیل، حدیث: 889)
پھر یہ روایت صحیح مسلم کی ایک روایت کے معارض ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
رمضان کے بعد ماہ محرم کے روزے زیادہ فضیلت کے حامل ہیں۔
(فتح الباري: 272/4)
ماہ شعبان میں رسول اللہ ﷺ اس لیے کثرت سے روزے رکھتے تھے کہ اس مہینے میں اللہ کی طرف بندوں کے عمل اٹھائے جاتے ہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
میں چاہتا ہوں میرے عمل جب اللہ کے حضور پیش ہوں تو میں بحالت روزہ ہوں۔
(مسندأحمد: 201/5)
واضح رہے کہ جس شخص کی پہلے سے روزہ رکھنے کی عادت نہیں وہ نصف شعبان کے بعد روزے نہ رکھے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جب نصف شعبان ہو جائے تو روزے نہ رکھو۔
(سنن أبي داود، الصوم، حدیث: 2336)
یعنی کوئی شخص شروع شعبان سے تو روزے نہیں رکھتا اور پندرہ دن گزرنے کے بعد روزے رکھنا شروع کر دیتا ہے تو ایسا کرنا جائز نہیں۔
البتہ اگر شروع شعبان سے روزے رکھتا ہے تو پھر جائز ہے۔
(3)
آخری حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اعتدال کے ساتھ مناسب اوقات میں جو کام پابندی سے کیا جائے وہ پایۂ تکمیل تک پہنچ جاتا ہے وگرنہ دوڑ کر چلنے والا ہمیشہ ٹھوکر کھا کر گر پڑتا ہے۔
اعتدال کے ساتھ کام کرنے سے نفس میں پاکیزگی اور خود اعتمادی بھی پیدا ہوتی ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1970