سنن ابن ماجه
كتاب الصيام -- کتاب: صیام کے احکام و مسائل
2. بَابُ : مَا جَاءَ فِي فَضْلِ شَهْرِ رَمَضَانَ
باب: ماہ رمضان کی فضیلت۔
حدیث نمبر: 1644
حَدَّثَنَا أَبُو بَدْرٍ عَبَّادُ بْنُ الْوَلِيدِ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِلَالٍ ، حَدَّثَنَا عِمْرَانُ الْقَطَّانُ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: دَخَلَ رَمَضَانُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ هَذَا الشَّهْرَ قَدْ حَضَرَكُمْ وَفِيهِ لَيْلَةٌ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ، مَنْ حُرِمَهَا فَقَدْ حُرِمَ الْخَيْرَ كُلَّهُ، وَلَا يُحْرَمُ خَيْرَهَا إِلَّا مَحْرُومٌ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رمضان آیا تو رسول کرام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ مہینہ آ گیا اور اس میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے، جو اس سے محروم رہا وہ ہر طرح کے خیر (بھلائی) سے محروم رہا، اور اس کی بھلائی سے محروم وہی رہے گا جو (واقعی) محروم ہو۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 1324، ومصباح الزجاجة: 598) (حسن صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1644  
´ماہ رمضان کی فضیلت۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رمضان آیا تو رسول کرام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ مہینہ آ گیا اور اس میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے، جو اس سے محروم رہا وہ ہر طرح کے خیر (بھلائی) سے محروم رہا، اور اس کی بھلائی سے محروم وہی رہے گا جو (واقعی) محروم ہو۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1644]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:

(1)
وعظ ونصیحت میں موقع محل کا لحاظ رکھنا چاہیے۔
علماء کرام عموماً خاص خاص ایام میں خاص موضوعات پر اظہار خیال کرتے ہیں۔
مثلاً ماہ محرم میں بدعات محرم کی تردید اور ماہ ربیع الاول میں اس ماہ کی بدعات کا رد لیکن یہ بھی مناسب نہیں کہ پورا مہینہ ایک ہی موضوع پر تقریریں کرنا ضروری سمجھ لیا جائے۔
جیسے محرم میں حادثہ کربلا کی جھوٹی سچی تفصیلات اور ماہ ربیع الاول میں رسول اللہ ﷺ کی ولادت اور بچپن کی تفصیلات بلکہ ان موضوعات کے ساتھ ساتھ دوسرے عملی مسائل بھی بیان کرنے چاہیں
(2)
اس مہینے کی افضل ترین رات لیلۃ القدر ہے۔
جس کا ذکر قرآن مجید میں بھی سورۃ القدر ميں ہے۔

(3)
شب قدر کی عبادت کا ثواب حاصل کرنے کےلئے رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف مسنون ہے تاہم اگر کوئی شخص اعتکاف نہ کرسکے تب بھی راتوں کی عبادت خصوصاً طاق راتوں کی عبادت میں سستی نہیں کرنی چاہیے۔

(4)
ایک رات عبادت میں گزارنے سے تیس ہزار سے زیادہ راتوں کی عبادت کا ثواب مل رہا ہو۔
پھر بھی کوئی شخص محض سستی کی وجہ سے یہ ثواب حاصل نہ کرسکے۔
تو یہ واقعی بہت بڑی محرومی ہے۔

(5)
یہ روایت بعض حضرات کے نزدیک حسن صحیح ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1644