صحيح البخاري
كِتَاب الصَّوْمِ -- کتاب: روزے کے مسائل کا بیان
54. بَابُ حَقِّ الضَّيْفِ فِي الصَّوْمِ:
باب: مہمان کی خاطر سے نفل روزہ نہ رکھنا یا توڑ ڈالنا۔
حدیث نمبر: 1974
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ، أَخْبَرَنَا هَارُونُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا عَلِيٌّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ يَعْنِي" إِنَّ لِزَوْرِكَ عَلَيْكَ حَقًّا، وَإِنَّ لِزَوْجِكَ عَلَيْكَ حَقًّا"، فَقُلْتُ: وَمَا صَوْمُ دَاوُدَ؟ قَالَ: نِصْفُ الدَّهْرِ.
ہم سے اسحاق نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو ہارون بن اسماعیل نے خبر دی، کہا کہ ہم سے علی نے بیان کیا، ان سے یحییٰ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابوسلمہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما نے بیان کیا، آپ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے یہاں تشریف لائے۔ پھر انہوں نے پوری حدیث بیان کی، یعنی تمہارے ملاقاتیوں کا بھی تم پر حق ہے اور تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے۔ اس پر میں نے پوچھا اور داؤد علیہ السلام کا روزہ کیسا تھا؟ تو آپ نے فرمایا کہ ایک دن روزہ رکھنا اور ایک دن بے روزہ رہنا صوم داؤدی ہے۔
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 567  
´نفلی روزے اور جن دنوں میں روزہ رکھنا منع ہے`
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے ہمیشہ روزہ رکھا اس نے (گویا) روزہ نہیں رکھا۔ (بخاری و مسلم) اور مسلم میں ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے یہ الفاظ ہیں کہ نہ روزہ رکھا نہ افطار کیا۔ [بلوغ المرام/حدیث: 567]
567 لغوی تشریح:
«لَاصَامَ مَنْ صَامَ الَّابَدَ» اس سے ہمیشہ اور سال بھر روزہ رکھنا مراد ہے۔ اور ہمیشہ روزہ رکھنے کی ممانعت اس لیے ہے کہ یہ طریقہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے خلاف ہے جس کا کوئی اجر و ثواب نہیں ملے گا۔
«لَاصَامَ وَلَا اَفْطَرَ» یعنی ہمیشہ روزہ رکھنے والے کا نہ روزہ ہے اور نہ افطار ہے۔ روزہ نہ ہونے کا مفہوم تو یہی ہے کہ یہ سنت کے خلاف ہے۔ اور نہ افطار کیا کا مفہوم یہ ہے کہ وہ کھانے پینے کی چیزوں سے محروم رہا اور روزے میں جن چیزوں سے رکا جاتا ہے، اس نے ان چیزوں سے کوئی فائدہ حاصل نہ کیا کیونکہ وہ اپنے آپ کو روزے دار سمجھتا رہا۔ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ ہمیشہ روزہ رکھنا ناجائز اور حرام ہے اور باقی سارا سال روزے رکھ کر صرف عیدین اور ایام تشریق کے روزے نہ رکھنے سے یہ کراہت رفع نہیں ہو جاتی۔ ٭
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 567   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1974  
1974. حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میرے پاس رسول اللہ ﷺ تشریف لائے۔ آپ نے پوری حدیث ذکر کی، یعنی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تیرے مہمان کا تجھ پر حق ہے اور تیری بیوی کا تجھ پر حق ہے۔ میں نے عرض کیا کہ حضرت داود ؑ کا روزہ کیا تھا؟ آپ نے فرمایا: نصف دہر تھا۔ یعنی ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن افطار کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1974]
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ نفلى روزہ سے زیادہ موجب ثواب یہ امر ہے کہ مہمان کے ساتھ کھائے پئیے، اس کی تواضع کرنے کے خیال سے خود نفل روزہ ترک کردے کہ مہمان کا ایک خصوصی حق ہے۔
دوسری حدیث میں فرمایا کہ جو شخص اللہ اور پچھلے دن پر ایمان رکھتا ہو اس کا یہ فرض ہے کہ اپنے مہمان کا اکرام کرے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1974   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1974  
1974. حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میرے پاس رسول اللہ ﷺ تشریف لائے۔ آپ نے پوری حدیث ذکر کی، یعنی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تیرے مہمان کا تجھ پر حق ہے اور تیری بیوی کا تجھ پر حق ہے۔ میں نے عرض کیا کہ حضرت داود ؑ کا روزہ کیا تھا؟ آپ نے فرمایا: نصف دہر تھا۔ یعنی ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن افطار کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1974]
حدیث حاشیہ:
(1)
علامہ زین بن منیر نے لکھا ہے:
اگر عنوان کے الفاظ حسب ذیل ہوتے تو زیادہ مناسب تھا:
افطار کرنے میں مہمان کا حق لیکن ہمارے نزدیک ان کا ملاحظہ محل نظر ہے کیونکہ روزے میں مہمان کا حق یہ ہے کہ اس کی خاطر اسے افطار کر دیا جائے لیکن افطار میں اس کا حق کیا ہو سکتا ہے؟ اس لیے امام بخاری ؒ کے عنوان ہی میں جامعیت ہے۔
(2)
اس حدیث کا مقصود یہ ہے کہ اگر کسی نے نفلی روزہ رکھا ہے تو اسے مہمان کی خاطر ختم کیا جا سکتا ہے کیونکہ مہمان کا حق ہے کہ اس کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا جائے اور اس کی دیگر ضروریات کا خیال رکھا جائے۔
بحالت روزہ حقِ ضیافت ادا نہیں ہو سکتا۔
یہ حدیث بہت طویل ہے۔
امام بخاری ؒ نے صرف وہی حصہ بیان کیا ہے جو عنوان سے متعلق تھا۔
(3)
قبل ازیں حضرت سلمان اور حضرت ابو درداء ؓ کے واقعے میں یہ مسئلہ بیان ہو چکا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1974