صحيح البخاري
كِتَاب الصَّوْمِ -- کتاب: روزے کے مسائل کا بیان
59. بَابُ صَوْمِ دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلاَمُ:
باب: داؤد علیہ السلام کا روزہ۔
حدیث نمبر: 1980
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ شَاهِينَ الْوَاسِطِيُّ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو الْمَلِيحِ، قَالَ: دَخَلْتُ مَعَ أَبِيكَ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، فَحَدَّثَنَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذُكِرَ لَهُ صَوْمِي، فَدَخَلَ عَلَيَّ، فَأَلْقَيْتُ لَهُ وِسَادَةً مِنْ أَدَمٍ حَشْوُهَا لِيفٌ، فَجَلَسَ عَلَى الْأَرْضِ، وَصَارَتِ الْوِسَادَةُ بَيْنِي وَبَيْنَهُ، فَقَالَ: أَمَا يَكْفِيكَ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ ثَلَاثَةُ أَيَّامٍ؟ قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: خَمْسًا، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: سَبْعًا، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: تِسْعًا، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: إِحْدَى عَشْرَةَ، ثُمَّ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا صَوْمَ فَوْقَ صَوْمِ دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلَام، شَطْرَ الدَّهَرِ، صُمْ يَوْمًا وَأَفْطِرْ يَوْمًا".
ہم سے اسحٰق واسطی نے بیان کیا، کہا ہم سے خالد نے بیان کیا، ان سے خالد حذاء نے اور ان سے ابوقلابہ نے کہ مجھے ابوملیح نے خبر دی، کہا کہ میں آپ کے والد کے ساتھ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر ہوا۔ انہوں نے ہم سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو میرے روزے کے متعلق خبر ہو گئی۔ (کہ میں مسلسل روزے رکھتا ہوں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے یہاں تشریف لائے اور میں نے ایک گدہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بچھا دیا۔ جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم زمین پر بیٹھ گئے۔ اور تکیہ میرے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کیا تمہارے لیے ہر مہینہ میں تین دن کے روزے کافی نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں نے عرض کی، یا رسول اللہ! (کچھ اور بڑھا دیجئیے) آپ نے فرمایا، اچھا پانچ دن کے روزے (رکھ لے) میں نے عرض کی، یا رسول اللہ کچھ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا چلو چھ دن، میں نے عرض کی یا رسول اللہ! (کچھ اور بڑھائیے، مجھ میں اس سے بھی زیادہ کی طاقت ہے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! اچھا نو دن، میں نے عرض کی، یا رسول اللہ! کچھ اور فرمایا، اچھا گیارہ دن۔ آخر آپ نے فرمایا کہ داؤد علیہ السلام کے روزے کے طریقے کے سوا اور کوئی طریقہ (شریعت میں) جائز نہیں۔ یعنی زندگی کے آدھے دنوں میں ایک دن کا روزہ رکھ اور ایک دن کا روزہ چھوڑ دیا کر۔
  مولانا محمد ابوالقاسم سيف بنارسي حفظ الله، دفاع بخاري، تحت الحديث صحيح بخاري 1976  
´ہمیشہ روزہ رکھنا`
«. . . فَصُمْ يَوْمًا وَأَفْطِرْ يَوْمًا، فَذَلِكَ صِيَامُ دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلَام وَهُوَ أَفْضَلُ الصِّيَامِ . . .»
. . . فرمایا کہ اچھا ایک دن روزہ رکھ اور ایک دن بے روزہ کے رہ کہ داؤد علیہ السلام کا روزہ ایسا ہی تھا اور روزہ کا یہ سب سے افضل طریقہ ہے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الصَّوْمِ: 1976]

فقہ الحدیث
منکرین اعتراض کرتے ہیں:
امام بخاری صائم الدہر رہا کرتے تھے، جیسا کہ کتاب طبقات کبریٰ امام عبدالوہاب شعرانی، مطبوعہ مصر [50/1] امام بخاری کے حال میں لکھا ہے:
«محمد بن إسماعيل البخاري، كان صائم الدھر، وجاع حتي انتھي أكله كل يوم إلي تمرة أو لوزة.»
محمد بن اسماعیل بخاری صائم الدہر تھے اور اتنی فاقہ کشی کی کہ ان کی روزانہ کی غذا ایک خرما یا ایک بادام تک پہنچ گئی۔
{أقول:} اے جناب! آپ نے امام بخاری رحمہ اللہ کے صائم الدھر ہونے کا مطلب نہیں سمجھا، وہ ہرگز حدیث کے خلاف عامل نہیں ہوئے، بلکہ حدیث میں جیسا مہینے میں تین دن روزہ رکھنے کو کہا گیا ہے، ویسا ہی امام بخاری رحمہ اللہ کرتے اور پھر بقیہ ایام نہایت کم خوراکی سے بسر کرتے، امام بخاری رحمہ اللہ کے صائم الدھر ہونے کہ یہ معنی ہیں، ورنہ جس معنی میں آپ نے سمجھا ہے، اس اعتبار سے شعرانی کی عبارت میں تناقض ہوتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ دن کو کھائیں بھی (ایک کھجور یا بادام ہی سہی) اور پھر صائم بھی ہوں؟ «ھل ھذا إلا تناقض!»

مطلب یہ ہے کہ ان کی اس قدر کم خوراکی بھی صیام کے مثل ہے، یہ نہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ کچھ کھاتے ہی نہ تھے،
اسی طبقات کبریٰ للشعرانی میں ہے:
ابوالحسن یوسف بن ابی ذر کہتے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے چالیس سال تک نانخورش نہیں کھایا، صرف خشک روٹیوں پر گزارا کرتے رہے، جب علیل ہوئے تو بہ تجویز شیوخ روٹیوں کے ساتھ شکر کھانی منظور کی۔ ۱؎

جس سے معلوم ہوا کہ امام بخاری رحمہ اللہ کچھ کھایا بھی کرتے تھے، لیکن چونکہ یہ کھانا اور نہ کھانا دونوں ایک برابر تھا، لہٰذا ان کو صائم الدہر کہا گیا، صائم الدہر کا وہ مطلب نہیں ہے، جو آپ نے سمجھا ہے کہ ہمیشہ روزہ ہی رکھا کرتے تھے، مطلقاً کچھ کھایا ہی نہیں، بلکہ کچھ ضرور کھاتے، پس یہ عمل ہرگز حدیث کے خلاف نہیں ہوا۔ ۲؎

امام نے تو بقدم اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مثل دنیا گزاری۔
------------------
۱؎ [ھدي الساري:ص،481]، [تغليق التعليق 398/5]، [الطبقات الكبري:ص:92]
۲؎ علاوہ ازیں شعرانی نے طبقات میں امام بخاری کے متعلق مذکورہ عمل کی کوئی سند بیان نہیں کی، کیونکہ مذکورہ عمل کے پایہ ثبوت کو پہنچنے کے بعد ہی کسی توجیہ کی ضرورت ہو سکتی ہے۔ «إذ ليس فيلس!»
   دفاع صحیح بخاری، حدیث/صفحہ نمبر: 132   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1706  
´ہمیشہ روزے رکھنا کیسا ہے؟`
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے ہمیشہ روزہ رکھا اس کا روزہ ہی نہیں ہوا۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1706]
اردو حاشہ:
فائدہ:
اس سے معلوم ہو اکہ ہمیشہ روزے رکھنے والے کو با لکل ثواب نہیں ملتا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1706   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2427  
´سدا نفلی روزے سے رہنا۔`
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میری ملاقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوئی تو آپ نے فرمایا: کیا مجھ سے یہ نہیں بیان کیا گیا ہے کہ تم کہتے ہو: میں ضرور رات میں قیام کروں گا اور دن میں روزہ رکھوں گا؟ کہا: میرا خیال ہے اس پر انہوں نے کہا: ہاں، اللہ کے رسول! میں نے یہ بات کہی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیام اللیل کرو اور سوؤ بھی، روزہ رکھو اور کھاؤ پیو بھی، ہر مہینے تین دن روزے رکھو، یہ ہمیشہ روزے رکھنے کے برابر ہے۔‏‏‏‏ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: میں نے کہا: اللہ کے رسول! میں اپنے اندر اس سے زیادہ ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2427]
فوائد ومسائل:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم و تلقین عمل میں انتہائی خفیف اور اجر میں بہت عظیم ہے، مگر حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کی طبیعت زیادہ کی حریص تھی، اس لیے زیادہ کی اجازت طلب کرتے رہے، مگر جب بڑھاپے میں کمزور ہو گئے تو کہا کرتے تھے: کاش میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمائے ہوئے تین دن قبول کر لیے ہوتے، وہ مجھے میرے اہل اور مال سے زیادہ محبوب تھے۔
(صحيح مسلم‘ الصيام‘ حديث:1159)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2427   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1980  
1980. حضرت ابو قلابہ سے روایت ہے انھوں نے کہا: مجھے ابو ملیح نے بتایا کہ میں تیرے باپ کے ہمراہ حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ کے پاس گیا۔ انھوں نے ہم سے بیان کیاکہ رسول اللہ ﷺ کے ہاں میرے روزوں کا تذکرہ ہوا تو آپ میرے ہاں تشریف لائے۔ میں نے آپ کے لیے کھجور کی چھال سے بھرا ہوا چمڑے کا تکیہ بچھادیا۔ آپ زمین پر بیٹھ گئے۔ اس بنا پر تکیہ میرے اورآپ کےدرمیان رہا۔ آپ نےفرمایا: کیا تمھیں ہر مہینے میں تین روزے کافی نہیں؟ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ!آپ نے فرمایا: پانچ روزے؟ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! آپ نے فرمایا: سات روزے؟ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! آپ نے فرمایا: نوروزے؟ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ﷺ! آپ نے فرمایا: گیارہ روزے؟ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ!پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: حضرت ابوداود ؑ کے روزوں میں سےکوئی روزہ افضل نہیں جو نصف سال کے روزے رکھتے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1980]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے اس سے پہلے ایک دن کا روزہ رکھنا اور ایک دن افطار کرنا اسے مستقل عنوان کے تحت بیان کیا تاکہ اس کے افضل ہونے کے بارے میں لوگوں کو آگاہ کیا جائے۔
اور اب صوم داود کو الگ عنوان سے بیان کیا تاکہ سیدنا داود ؑ کی اس سلسلے میں اقتدا کی جائے۔
حضرت ابو قتادہ ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے ایک دن روزہ رکھنے اور ایک دن افطار کرنے کے متعلق سوال ہوا تو آپ نے فرمایا:
میرے بھائی حضرت داود ؑ بھی اسی طرح روزے رکھتے تھے'' (صحیح مسلم، الصیام، حدیث: 2747(1162) (2)
ایک روایت میں رسول اللہ ﷺ نے اسے افضل الصیام قرار دیا ہے۔
(صحیح مسلم، الصیام، حدیث: 2742(1159)
سنن نسائی کی ایک روایت میں ہے:
یہ روزے اعدل الصیام ہیں۔
نیز آپ ﷺ نے فرمایا:
حضرت داود علیہ السلام اس قدر روزے رکھنے کے باوجود، جب کبھی دشمن سے ان کا مقابلہ ہوتا تو آپ اس کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے اور کسی صورت میں راہ فرار نہیں اختیار کرتے تھے۔
(سنن النسائي، الصیام، حدیث: 2395)
سنن نسائی کی روایت میں ہے:
جب حضرت داود ؑ وعدہ کرتے تو اس کی خلاف ورزی نہیں کرتے تھے۔
(سنن النسائي، الصیام، حدیث: 2395) (3)
اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ کی، اپنی امت پر شفقت اور مہربانی کی وضاحت ہے۔
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں صحابۂ کرام ؓ کی اکثریت مالی وسعت نہ رکھتی تھی کیونکہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے چمڑے کا تکیہ بچھانے پر اکتفا کیا جبکہ صحابۂ کرام رسول اللہ ﷺ پر جان و مال قربان کرنے کے لیے تیار رہتے تھے۔
(4)
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نیک اعمال اور دیگر اوراد و وظائف کی خبر دینا جائز ہے بشرطیکہ نمودونمائش اور ریاکاری کا شائبہ نہ ہو۔
(عمدةالقاري: 201/8)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1980