سنن ابن ماجه
كتاب الصيام -- کتاب: صیام کے احکام و مسائل
48. بَابٌ في «الصَّائِمُ لاَ تُرَدُّ دَعَوْتُهُ»
باب: روزہ دار کی دعا رد نہ ہونے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1752
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ سَعْدَانَ الْجُهَنِيِّ ، عَنْ سَعْدٍ أَبِي مُجَاهِدٍ الطَّائِيِّ وَكَانَ ثِقَةً، عَنْ أَبِي مُدِلَّةَ وَكَانَ ثِقَةً، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" ثَلَاثَةٌ لَا تُرَدُّ دَعْوَتُهُمُ الْإِمَامُ الْعَادِلُ، وَالصَّائِمُ حَتَّى يُفْطِرَ، وَدَعْوَةُ الْمَظْلُومِ يَرْفَعُهَا اللَّهُ دُونَ الْغَمَامِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَتُفْتَحُ لَهَا أَبْوَابُ السَّمَاءِ، وَيَقُولُ: بِعِزَّتِي لَأَنْصُرَنَّكِ وَلَوْ بَعْدَ حِينٍ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین آدمیوں کی دعا رد نہیں کی جاتی: ایک تو عادل امام کی، دوسرے روزہ دار کی یہاں تک کہ روزہ کھولے، تیسرے مظلوم کی، اللہ تعالیٰ اس کی دعا قیامت کے دن بادل سے اوپر اٹھائے گا، اور اس کے لیے آسمان کے دروازے کھول دئیے جائیں گے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میری عزت کی قسم! میں تمہاری مدد ضرور کروں گا گرچہ کچھ زمانہ کے بعد ہو ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/الدعوات 29 (3598)، (تحفة الأشراف: 15457)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/304، 305، 445، 447) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (پہلا فقرہ «الإِمَامُ الْعَادِلُ» کے بجائے «المسافر» کے لفظ کے ساتھ صحیح ہے، نیز «الصَّائِمُ حَتَّى يُفْطِرَ، وَدَعْوَةُ الْمَظْلُومِ» کا فقرہ بھی صحیح ہے، تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 596- 1797 ور صحیح ابن خزیمہ: 1901)

وضاحت: ۱؎: مظلوم کی آہ خالی جانے والی نہیں، ظالم اگر چند روز بچا رہے، تو اس سے یہ نہ سمجھنا چاہئے کہ اللہ تعالی اس سے راضی ہے، بلکہ یہ استدراج اور ڈھیل ہے کہ ایک نہ ایک دن دنیا ہی میں اللہ تعالیٰ اس سے بدلہ لے لے گا، حدیث میں مظلوم کو مطلق رکھا مسلمان کی قید نہیں کی، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کافر پر بھی ظلم ناجائز ہے، کیونکہ سب اللہ کے بندے ہیں، اور کافر اگر مظلوم ہو تو اس کی دعا اثر کرے گی، غرض ظلم سے انسان کو ہمیشہ بچتے رہنا چاہئے، اس کے برابر کوئی گناہ نہیں، اور ظلم کا اطلاق ہر زیادتی اور نقصان پر جو ناحق کسی کے ساتھ کیا جائے، خواہ مال کا نقصان ہو یا عزت کا یا جان کا۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف وصح منه شطره الأول لكن بلفظ المسافر وفي رواية الوالد مكان الإمام
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1752  
´روزہ دار کی دعا رد نہ ہونے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین آدمیوں کی دعا رد نہیں کی جاتی: ایک تو عادل امام کی، دوسرے روزہ دار کی یہاں تک کہ روزہ کھولے، تیسرے مظلوم کی، اللہ تعالیٰ اس کی دعا قیامت کے دن بادل سے اوپر اٹھائے گا، اور اس کے لیے آسمان کے دروازے کھول دئیے جائیں گے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میری عزت کی قسم! میں تمہاری مدد ضرور کروں گا گرچہ کچھ زمانہ کے بعد ہو ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1752]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
روزہ کھولنے کا وقت دعا کی قبولیت کا وقت ہے اس لئے اس مو قع پر اپنے لئے اور اپنے اہل و عیا ل کے لئے خیرو برکت اور ضرورت پوری ہونے کی دعا کرنا مناسب ہے۔

(2)
ظلم سےپرہیز کرنا انتہائی ضروری ہے اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا ظلم قیامت کے دن تاریکیاں بن جائے گا (صحیح البخاري، المظالم، باب الظلم ظلمات یوم القیامة، حدیث: 2447)

(3)
مظلو م کی دعا سے مراد ظالم کے خلا ف بد دعا ہے یا ظلم سے نجات کے لئے اللہ سے دعا ہے۔

(4)
بادل سے مراد وہ بادل ہے جواس آیت مبا رکہ میں مذکور ہے۔
﴿وَيَوْمَ تَشَقَّقُ ٱلسَّمَآءُ بِٱلْغَمَـٰمِ وَنُزِّلَ ٱلْمَلَـٰٓئِكَةُ تَنزِيلًا﴾  (الفرقان، 25: 25)
 جس دن بادلوں کے ساتھ آسمان پھٹ جائے گا اور فرشتے پے در پے نیچے اتارے جا ئیں گے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1752   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3598  
´دنیا و آخرت میں عافیت طلبی کا بیان`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین لوگ ہیں جن کی دعا رد نہیں ہوتی: ایک روزہ دار، جب تک کہ روزہ نہ کھول لے، (دوسرے) امام عادل، (تیسرے) مظلوم، اس کی دعا اللہ بدلیوں سے اوپر تک پہنچاتا ہے، اس کے لیے آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں، اور رب کہتا ہے: میری عزت (قدرت) کی قسم! میں تیری مدد کروں گا، بھلے کچھ مدت کے بعد ہی کیوں نہ ہو۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الدعوات/حدیث: 3598]
اردو حاشہ:
نوٹ:
(اَلْإِمَامُ الْعَادِلُ کے لفظ سے ضعیف ہے،
اور اَلمُسَافِرُ کے لفظ سے صحیح ہے،
سند میں ابومدلہ مولی عائشہ'' مجہول راوی ہے،
نیز یہ حدیث ابوہریرہ ہی کی صحیح حدیث جس میں اَلمُسُافِرُ کا لفظ ہے کے خلاف ہے،
ملاحظہ ہو: الضعیفة رقم: 1358،
والصحیحة رقم: 596)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3598