سنن ابن ماجه
كتاب الصيام -- کتاب: صیام کے احکام و مسائل
51. بَابُ : مَنْ مَاتَ وَعَلَيْهِ صِيَامٌ مِنْ نَذْرٍ
باب: میت کے نذر والے روزے کے حکم کا بیان۔
حدیث نمبر: 1758
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ مُسْلِمٍ الْبَطِينِ ، وَالْحَكَمِ ، وَسَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، وَعَطَاءٍ ، وَمُجاهِدٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: جَاءَتِ امْرَأَةٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أُخْتِي مَاتَتْ وَعَلَيْهَا صِيَامُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ، قَالَ:" أَرَأَيْتِ لَوْ كَانَ عَلَى أُخْتِكِ دَيْنٌ أَكُنْتِ تَقْضِينَهُ؟"، قَالَتْ: بَلَى، قَالَ:" فَحَقُّ اللَّهِ أَحَقُّ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک عورت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی، اور اس نے کہا: اللہ کے رسول! میری بہن کا انتقال ہو گیا، اور اس پہ مسلسل دو ماہ کے روزے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بتاؤ اگر تمہاری بہن پہ قرض ہوتا تو کیا تم اسے ادا کرتیں؟ اس نے کہا: ہاں، ضرور ادا کرتی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنا زیادہ اہم ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الصوم 42 (1953)، صحیح مسلم/الصیام 27 (1148)، سنن ابی داود/الأیمان 26 (3310)، سنن الترمذی/الصوم 22 (716)، (تحفة الأشراف: 5612، 5395، 5513، 9852، 5895، 9561، 6385، 6396، 6322)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/224، 227، 258، 362)، سنن الدارمی/الصوم 49 (1809) لکن عندھم: أن أمي ماتت (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 716  
´میت کی طرف سے روزہ رکھنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ایک عورت نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا: میری بہن مر گئی ہے۔ اس پر مسلسل دو ماہ کے روزے تھے۔ بتائیے میں کیا کروں؟ آپ نے فرمایا: ذرا بتاؤ اگر تمہاری بہن پر قرض ہوتا تو کیا تم اسے ادا کرتیں؟ اس نے کہا: ہاں (ادا کرتی)، آپ نے فرمایا: تو اللہ کا حق اس سے بھی بڑا ہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيام/حدیث: 716]
اردو حاشہ:
1؎:
اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ جوشخص مر جائے اور اس کے ذمہ روزہ ہو تو اس کا ولی اس کی طرف سے روزہ رکھے،
محدثین کا یہی قول ہے اور یہی راجح ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 716