سنن ابن ماجه
كتاب الزكاة -- کتاب: زکاۃ و صدقات کے احکام و مسائل
6. بَابُ : مَا تَجِبُ فِيهِ الزَّكَاةُ مِنَ الأَمْوَالِ
باب: جن چیزوں میں زکاۃ واجب ہے ان کا بیان۔
حدیث نمبر: 1794
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسِ ذَوْدٍ صَدَقَةٌ، وَلَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسِ أَوَاقٍ صَدَقَةٌ، وَلَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسَةِ أَوْسَاقٍ صَدَقَةٌ".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پانچ اونٹ سے کم میں زکاۃ نہیں ہے، اور پانچ اوقیہ سے کم چاندی میں زکاۃ نہیں ہے، اور پانچ وسق سے کم اناج یا میوہ میں زکاۃ نہیں ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 2566، ومصباح الزجاجة: 642)، مسند احمد (3/296) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 494  
´بیس من غلے سے کم میں کوئی زکاۃ نہیں`
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پانچ اوقیہ سے کم چاندی پر کوئی زکوٰۃ نہیں۔ اسی طرح اونٹوں کی تعداد پانچ سے کم ہو تو ان پر بھی زکوٰۃ نہیں اور پانچ وسق سے کم کھجوروں پر بھی زکوٰۃ نہیں۔ [بلوغ المرام /كتاب الجنائز/حدیث: 494]
لغوی تشریح:
«اَوَاقٍ» اس پر تنوین ہے۔ اور قاف کے بعد یاء مشددہ اور مخفصہ کی صورت بھی جائز ہے، اوقیہ کی جمع ہے۔ اوقیہ کے ہمزاہ پر ضمہ اور یا پر تشدید ہے۔ ایک اوقیے میں چالیس درہم ہوتے ہیں اور یوں پانچ اوقیوں کے دو سو درہم ہیں۔ جدید وزنی پیمانے کے مطابق دو سو درہم کا وزن 615 گرام بنتا ہے۔
«اَلْوَرِقِ» واو پر فتحہ اور را کے نیچے کسرہ ہے اور را ساکن بھی پڑھی گئی ہے۔ معنی اس کے چاندی کے ہیں۔
«ذَوْدِ» ذال پر فتحہ اور واو' پر ساکن ہے اونٹ کے معنی میں ہے۔ یہ اسم جمع ہے۔ اس میں مذکر و مونث اور قلیل و کثیر سبھی شامل ہیں۔ اسی لیے خمس کی اضافت اس کی طرف جائز ہے۔
«اَوْسُقِ» ہمزہ پر فتحہ واو ساکن اور سین پر ضمہ ہے۔ «وسق» کی جمع ہے۔ «وسق» کی واو پر فتحہ اور کسرہ دونوں جائز ہیں۔ ایک وسق ساٹھ صاع کا ہوتا ہے اور پانچ وسق تین سو وصاع کے ہوئے۔ اور آپ کو معلوم ہے کہ ایک صاع میں چار مد ہوتے ہیں اور ایک مد ایک رطل اور تہائی رطل کے برابر ہوتا ہے، نیز جدید پیمانے کے مطابق ایک صاع تقریباً اڑھائی کلو گرام کا ہوتا ہے۔
«‏‏‏‏اَوْسَاقٍ» «وسق» کی جمع ہے، «اوسق» کی طرح۔
«حَبَّ» حا پر فتحہ اور با پر تشدید ہے۔ بیچ، تخم، گندم کا بیج، جو اور مسور وغیرہ۔
لفظ «دُونَ» چاروں جگہ «اَقَلُّ» کے معنی میں ہے، یعنی مذکورہ اشیاء کی اس مقدار سے کم پر زکاۃ واجب نہیں۔

فائدہ:
اس حدیث میں چاندی کا نصاب پانچ اوقیے بیان ہوا ہے جبکہ اس سے پہلی حدیث میں دو سو درہم ہے۔ ان دونوں احادیث میں کوئی تعارض اور اختلاف نہیں ہے۔ اس لیے کہ ایک اوقیے میں چالیس درہم ہوتے ہیں اور پانچ اوقیوں کے دو سو درہم ہو گئے، لہٰذا کوئی تعارض نہ رہا۔ تین سو صاع حجازی ہمارے ملک میں مروج انگریزی وزن کے اعتبار سے تقریباً بیس من ہوتے ہیں۔ ایک وسق میں ساٹھ صاع ہوتے ہیں جو چار من کے برابر ہے۔
گویا ہمارے ملکی حساب سے بیس من غلے سے کم میں کوئی زکاۃ نہیں، مگر احناف نے کتاب اللہ اور حدیث کے عموم کو سامنے رکھتے ہوئے یہ فتویٰ دیا ہے کہ غلہ اور کھجور، خواہ ایک من یا اس سے بھی کم ہی کیوں نہ ہو اس میں بھی زکاۃ ہے۔ مگر پہلی رائے ہی زیادہ صحیح ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب خود وزن مقرر فرما دیا ہے تو پھر ہمیں اسی پر عمل کرنا چاہیے۔ اس میں اپنی جانب سے کمی بیشی کرنے کی اجازت نہیں، ہر اس جنس میں جو سال بھر ذخیرہ ہو سکتی ہے اس میں زکاۃ ہے، مثلاً: گندم، چاول، جو، باجرہ، مکئی، ماش، مونگ اور چنے وغیرہ۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 494