سنن ابن ماجه
كتاب الزكاة -- کتاب: زکاۃ و صدقات کے احکام و مسائل
20. بَابُ : زَكَاةِ الْعَسَلِ
باب: شہد کی زکاۃ کا بیان۔
حدیث نمبر: 1824
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى ، حَدَّثَنَا نُعَيْمُ بْنُ حَمَّادٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ ، حَدَّثَنَا أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَنَّهُ أَخَذَ مِنَ الْعَسَلِ الْعُشْرَ".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شہد سے دسواں حصہ زکاۃ لی۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن ابی داود/الزکاة 12 (1602)، (تحفة الأشراف: 8657)، سنن النسائی/الزکاة 29 (2501) (حسن صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
  حافظ نديم ظهير حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابن ماجه 1824  
´شہد کی زکاۃ`
«. . . عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَنَّهُ أَخَذَ مِنَ الْعَسَلِ الْعُشْرَ .»
۔۔۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شہد سے دسواں حصہ زکاۃ لی۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الزكاة: 1824]

فقہ الحدیث
شہد پر زکاۃ سے متعلق کافی اختلاف پایا جاتا ہے، لیکن اہل ایمان پر لازم ہے کہ بےجا اختلاف سے بچتے ہوئے ثابت شدہ امور پر عمل پیرا ہوں، چنانچہ:
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ «انه اخذ من العسل العشر» نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شہد کا عشر وصول کیا۔ [صحيح، سنن ابن ماجه 1824]
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما ہی ہے روایت ہے کہ سیدنا ہلال رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنے شہد کی زکاۃ لے کر حاضر ہوئے اور آپ سے عرض کیا: آپ وادی سلبہ ان کے لیے خاص کر دیں، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (حصول شہد کے لیے) وہ وادی ان کے لیے خاص کر دی۔ جب سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے تو سفیان بن وہب نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے اس بارے میں پوچھنے کے لیے خط لکھا تو عمر رضی اللہ عنہ نے جواب میں لکھا: اگر وہ تجھے اپنے شہد کا عشر ادا کرتے رہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ادا کیا کرتے تھے تو وادی سلبہ ان کے لیے خاص رہنے دو، ورنہ برساتی مکھی کا شہد ہے جو چاہے اسے کھائے۔ [سنن نسائي 2501، سنن ابي داود 1600، وسنده صحيح]
سیدنا ابن العاص رضی اللہ عنہ کا بیان ہے: قبیلہ فہم کا ایک گروہ . . . . . دس مشکوں میں سے ایک مشک (بطور عشر) دیتے تھے اور دونوں وادیاں انہی کے لیے خاص رہیں۔ [سنن ابي داود 1602، وسنده حسن]
ان احادیث سے مستنبط ہونے والے مسئلے پر اگرچہ بعض علماء نے کلام کیا ہے، لیکن علماء کی ایک جماعت نے اس سے یہی سمجھا ہے کہ شہد میں عشر ہے۔
عبداللہ بن احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا بیان ہے، میں نے اپنے والد محترم (امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ) سے پوچھا: کیا شہد پر زکاۃ ہے؟ انہوں نے فرمایا: شہد میں عشر ہے۔ [مسائل الامام احمد: 620]
مذکورہ دلائل سے واضح ہوتا ہے کہ براہ راست چھتے سے اتارنے والے کے پاس اگر شہد اتنی مقدار میں ہو کہ وہ دس مشکیں بن جائے تو اس پر ایک مشک بطور عشر ادا کرنا ضروری ہے اور اگر اس سے کم ہو تو اس پر یہ حکم نہیں ہے۔ واضح رہے کہ جو لوگ بطور تجارت شہد کی خرید و فروخت کرتے ہیں، یعنی براہ راست خود چھتوں سے شہد نہیں اترواتے لیکن اس کا لین دین کرتے ہیں تو ان کی تجارت پر وہی زکوٰۃ عائد کی جائے گی جو تجارتی مال پر ہے۔ «والله اعلم»
   ماہنامہ الحدیث حضرو ، شمارہ 134، حدیث/صفحہ نمبر: 7