سنن ابن ماجه
كتاب الزكاة -- کتاب: زکاۃ و صدقات کے احکام و مسائل
21. بَابُ : صَدَقَةِ الْفِطْرِ
باب: صدقہ فطر کا بیان۔
حدیث نمبر: 1828
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُخَيْمِرَةَ ، عَنْ أَبِي عَمَّارٍ ، عَنْ قَيْسِ بْنِ سَعْدٍ ، قَالَ:" أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِصَدَقَةِ الْفِطْرِ قَبْلَ أَنْ تُنْزَلَ الزَّكَاةُ، فَلَمَّا نَزَلَتِ الزَّكَاةُ لَمْ يَأْمُرْنَا، وَلَمْ يَنْهَنَا، وَنَحْنُ نَفْعَلُهُ".
قیس بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زکاۃ کا حکم نازل ہونے سے پہلے ہمیں صدقہ فطر ادا کرنے کا حکم دیا، لیکن جب زکاۃ کا حکم نازل ہو گیا تو نہ تو ہمیں صدقہ فطر دینے کا حکم دیا، اور نہ ہی منع کیا، اور ہم اسے دیتے رہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن النسائی/الزکاة 35 (2508)، (تحفة الأشراف: 11098)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/442، 6/6) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نیا حکم نہیں دیا، پہلا حکم ہی کافی تھا، زکاۃ کا حکم اترنے سے صدقہ فطر موقوف نہیں ہوا، بلکہ اس کی فرضیت اپنے حال پر باقی رہی۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1828  
´صدقہ فطر کا بیان۔`
قیس بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زکاۃ کا حکم نازل ہونے سے پہلے ہمیں صدقہ فطر ادا کرنے کا حکم دیا، لیکن جب زکاۃ کا حکم نازل ہو گیا تو نہ تو ہمیں صدقہ فطر دینے کا حکم دیا، اور نہ ہی منع کیا، اور ہم اسے دیتے رہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الزكاة/حدیث: 1828]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اس حدیث سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ صدقہ فطر کی ادائیکی واجب نہیں تاہم رسول اللہ ﷺ کے صدقہ فطر جمع کر کے فقراء میں تقسیم کرنے کے اہتمام سے اندازہ ہوتا ہے کہ زکاۃ کے احام نازل ہونے سے صدقہ فطر کا وجوب منسوخ نہیں ہوا۔

(2)
رسول اللہ ﷺ نے صدقہ فطر کی ادائیکی سے منع نہیں فرمایا، اس سے بھی یہی اشارہ ملتا ہے کہ اس کی مشروعیت منسوخ نہیں ہوئی ورنہ رسول اللہ ﷺ واضح فرما دیتے کہ اب اس کی ادائیگی ضروری نہیں رہی۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1828