بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک نوجوان عورت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی عرض کیا: میرے والد نے میرا نکاح اپنے بھتیجے سے کر دیا ہے، تاکہ میری وجہ سے اس کی ذلت ختم ہو جائے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کو اختیار دے دیا، تو اس نے کہا: میرے والد نے جو کیا میں نے اسے مان لیا، لیکن میرا مقصد یہ تھا کہ عورتوں کو یہ معلوم ہو جائے کہ ان کے باپوں کو ان پر (جبراً نکاح کر دینے کا) اختیار نہیں پہنچتا۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1874
´باپ بیٹی کا نکاح اس کی رضا مندی کے بغیر کر دے تو اس کے حکم کا بیان۔` بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک نوجوان عورت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی عرض کیا: میرے والد نے میرا نکاح اپنے بھتیجے سے کر دیا ہے، تاکہ میری وجہ سے اس کی ذلت ختم ہو جائے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کو اختیار دے دیا، تو اس نے کہا: میرے والد نے جو کیا میں نے اسے مان لیا، لیکن میرا مقصد یہ تھا کہ عورتوں کو یہ معلوم ہو جائے کہ ان کے باپوں کو ان پر (جبراً نکاح کر دینے کا) اختیار نہیں پہنچتا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1874]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) ” تاکہ میرے ذریعے سے اس کا مقام بلند ہو جائے“ اس کا یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ میرے والد نادار ہیں اور ان کا بھتیجا خوشحال ہے، وہ چاہتے ہیں کہ اس رشتے کی وجہ سے انہیں بھی مالی فوائد حاصل ہو جائیں۔ اور یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ بھتیجا نادار ہے والد صاحب میرا رشتہ دے کر اس کا مقام بلند کرنا چاہیے ہیں تاکہ لوگ یہ سمجھ کر اس کی عزت کریں کہ یہ فلاں صاحب کا داماد ہے۔
(2) والدین کو بھی لڑکی کی رضامندی کے بغیر بالجبر ایسی جگہ نکاح کر دینے کی اجازت نہیں ہے جو اسے پسند نہ ہو۔
(3) ایسی صورت میں لڑکی کو نکاح فسخ کرانے کی اجازت ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1874