صحيح البخاري
كِتَاب الصَّوْمِ -- کتاب: روزے کے مسائل کا بیان
69. بَابُ صِيَامِ يَوْمِ عَاشُورَاءَ
باب: اس بارے میں کہ عاشوراء کے دن کا روزہ کیسا ہے؟
حدیث نمبر: 2002
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ:" كَانَ يَوْمُ عَاشُورَاءَ تَصُومُهُ قُرَيْشٌ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُهُ، فَلَمَّا قَدِمَ الْمَدِينَةَ صَامَهُ، وَأَمَرَ بِصِيَامِهِ، فَلَمَّا فُرِضَ رَمَضَانُ تَرَكَ يَوْمَ عَاشُورَاءَ، فَمَنْ شَاءَ صَامَهُ، وَمَنْ شَاءَ تَرَكَهُ".
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے امام مالک رحمہ اللہ نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے اور ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ عاشوراء کے دن زمانہ جاہلیت میں قریش روزہ رکھا کرتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی رکھتے۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں بھی عاشورہ کے دن روزہ رکھا اور اس کا لوگوں کو بھی حکم دیا۔ لیکن رمضان کی فرضیت کے بعد آپ نے اس کو چھوڑ دیا اور فرمایا کہ اب جس کا جی چاہے اس دن روزہ رکھے اور جس کا چاہے نہ رکھے۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 266  
´عاشوراء کے روزے کا بیان`
«. . . 466- وبه: أنها قالت: كان يوم عاشوراء يوما تصومه قريش فى الجاهلية، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصومه فى الجاهلية، فلما قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم المدينة صامه وأمر بصيامه، فلما فرض رمضان كان هو الفريضة وترك يوم عاشوراء، فمن شاء صامه ومن شاء تركه. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے) روایت ہے کہ جاہلیت میں قریش عاشوراءکے ایک دن کا روزہ رکھا کرتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی بعثت سے پہلے اسے رکھا کرتے تھے، پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو یہ روزہ خود بھی رکھا اور اسے رکھنے کا حکم بھی دیا۔ پھر جب رمضان فرض ہوا تو اسی کے روزے فرض قرار پائے اور عاشوراء کا روزہ ترک کر دیا گیا، پس جو چاہے یہ روزہ رکھے اور جو چاہے اسے ترک کر دے یعنی نہ رکھے۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 266]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 2002، من حديث مالك به]

تفقه:
➊ عاشوراء کا روزہ فرض نہیں بلکہ سنت ہے۔ اس روزے سے گزشتہ سال کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ دیکھئے: [صحيح مسلم 1162، ترقيم دارالسلام: 2747]
➋ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے ایک روایت میں آیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر میں اگلے سال زندہ رہا تو نو(9) محرم کا روزہ رکھوں گا۔ دیکھئے: [صحيح مسلم 1134، دارالسلام: 2666]
◄ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو فرمایا: جب تم محرم کا چاند دیکھو تو گنتی شروع کر دو اور نو (9) محرم کو روزہ رکھو۔ [صحيح مسلم: 1133، دارالسلام: 2664]
◄ اگر کوئی کہے: کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ دس محرم کو روزہ نہیں ہو گا؟ تو عرض ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: «صوموا التاسع والعاشر وخلفوا اليهود» نو اور دس (محرم) کا روزہ رکھو اور یہودیوں کی مخالفت کرو۔ [السنن الكبريٰ للبيهقي 4/287 وسنده صحيح، مصنف عبدالرزاق 7839، السنن المأثوره للشافعي رواية الطحاوي ص317 ح337]
اور یہ ظاہر ہے کہ راوی اپنی روایت کو سب سے زیادہ جانتا ہے۔
◄ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسے بعض لوگوں کے قاعدے کے طور پر بطورِ الزام ذکر کیا ہے۔ دیکھئے: [فتح الباري 4/230 ح2111]
➌ قاسم بن محمد بن ابی بکر عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے۔ دیکھئے: [مصنف ابن ابي شيبه تقديم الشيخ سعد بن عبدالله آل حميد ج4 ص90 ح9450 وسنده صحيح، وسقط القاسم من النسخة الأخريٰ!]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 466   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 753  
´یوم عاشوراء کا روزہ نہ رکھنے کی رخصت کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ عاشوراء ایک ایسا دن تھا کہ جس میں قریش زمانہ جاہلیت میں روزہ رکھتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس دن روزہ رکھتے تھے، جب آپ مدینہ آئے تو اس دن آپ نے روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا، لیکن جب رمضان کے روزے فرض کئے گئے تو صرف رمضان ہی کے روزے فرض رہے اور آپ نے عاشوراء کا روزہ ترک کر دیا، تو جو چاہے اس دن روزہ رکھے اور جو چاہے نہ رکھے۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيام/حدیث: 753]
اردو حاشہ: 1 ؎:
مؤلف نے حدیث پر حکم تیسرے فقرے میں لگایا ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 753   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2002  
2002. حضرت عائشہ ؓ ہی سے روایت ہے انھوں نے فرمایاکہ جاہلیت میں قریش عاشوراء کا روزہ رکھا کرتے تھے۔ اور رسول اللہ ﷺ بھی نبوت سے پہلے اس دن کا روزہ رکھتے تھے۔ جب آپ مدینہ طیبہ تشریف لائے تو خود بھی روزہ رکھا اوردوسروں کوبھی اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیالیکن جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو عاشوراء کا روزہ چھوڑ دیا گیا۔ اب جو چاہے اس دن روزہ رکھے جو چاہے نہ رکھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2002]
حدیث حاشیہ:
(1)
عاشوراء دسویں محرم کو کہتے ہیں۔
محرم الحرام کا مہینہ دین اسلام میں بڑی اہمیت کا حامل ہے۔
اسے ان چار مہینوں میں شامل کیا گیا ہے جن کی عزت و توقیر کو ضروری قرار دیا گیا ہے۔
ادب و احترام والے چار مہینے حسب ذیل ہیں:
٭ ذوالقعدہ ٭ ذوالحجہ ٭ محرم ٭ رجب۔
ماہ محرم کی عزت اس لیے نہیں کہ اس میں سیدنا حضرت حسین ؓ کی شہادت ہوئی ہے بلکہ قرآنی تصریح کے مطابق زمین و آسمان کی تخلیق کے وقت ہی سے یہ مہینہ حرمت والا ہے لیکن بعض لوگ محرم کا چاند نظر آتے ہی اس کا پہلا عشرہ واہی تباہی کی نذر کر دیتے ہیں اور اس مہینے کو صرف کربلا کی قصہ گوئی کے لیے مخصوص کر دیا جاتا ہے اور یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ ماہ محرم کا تقدس شاید سانحہ کربلا کی وجہ سے ہے، حالانکہ اس کی حرمت و عظمت کسی واقعے یا سانحے کی مرہون منت نہیں ہے۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا گیا:
رمضان کے بعد کون سا روزہ افضل ہے؟ تو آپ نے فرمایا:
اللہ تعالیٰ کے ماہ محرم کا۔
(مسندأحمد: 342/2)
اس سے معلوم ہوا کہ ماہ محرم کے روزے بہت فضیلت والے ہیں، لہذا اس میں کثرت سے روزے رکھے جائیں، البتہ عاشوراء کا روزہ ان میں سب سے زیادہ مؤکد ہے جسے ثابت کرنے کے لیے امام بخاری ؒ نے مذکورہ عنوان قائم کیا ہے اور احادیث پیش کی ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ پہلے آپ نے یہ روزہ رکھنے کا حکم دیا، بعد ازاں حکم وجوب ختم کر دیا جسے حدیث میں ترک سے تعبیر کیا گیا ہے، تاہم اس کا استحباب برقرار رکھا گیا۔
(2)
عاشوراء کی تاریخی حیثیت بہت قدیم ہے۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ اور آپ کی قوم کو فرعون سے اسی عاشوراء کے دن نجات دی تھی تو بنی اسرائیل اس خوشی میں بطور شکرانہ روزہ رکھتے تھے جیسا کہ آئندہ بخاری کی حدیث میں بیان ہو گا۔
یہودی صرف روزہ ہی نہیں رکھتے تھے بلکہ خوشی و مسرت کا اظہار بھی کرتے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ اہل خیبر اس دن جشن مناتے اور اپنی عورتوں کو زیورات اور سامان زینت سے مزین کرتے۔
(صحیح مسلم، الصیام، حدیث: 2661۔
2660(1131)
اس دن اظہار مسرت کے لیے عیسائی بھی یہودیوں کے ساتھ شریک ہوتے اور اس دن کی عظمت کا اظہار کرتے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ اس دن کو یہودی اور عیسائی بڑا عظیم خیال کرتے تھے۔
(حوالہ نہیں لکھا ہوا)
ایام جاہلیت میں قریش بھی اس دن کو عظیم سمجھتے تھے اور اس عظمت کے پیش نظر کعبہ شریف کو غلاف پہناتے اور اس دن کا روزہ رکھتے تھے، چنانچہ حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ زمانۂ جاہلیت میں قریش سے کوئی گناہ سرزد ہو گیا جو ان کے دل میں کانٹے کی حیثیت اختیار کر گیا، انہیں بتایا گیا کہ عاشوراء کی تعظیم اور اس دن کا روزہ رکھنے سے اس گناہ کی تلافی ہو سکتی ہے، (فتح الباري: 312/4)
چنانچہ حدیث عائشہ میں بیان ہوا ہے کہ قریش دور جاہلیت میں عاشوراء کا روزہ رکھا کرتے تھے اور رسول اللہ ﷺ نے بھی بعثت سے قبل اس دن کا روزہ رکھا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2002