سنن ابن ماجه
كتاب الطلاق -- کتاب: طلاق کے احکام و مسائل
17. بَابُ : لاَ طَلاَقَ قَبْلَ النِّكَاحِ
باب: نکاح سے پہلے دی گئی طلاق کے صحیح نہ ہونے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2048
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ الدَّارِمِيُّ ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" لَا طَلَاقَ قَبْلَ نِكَاحٍ وَلَا عِتْقَ قَبْلَ مِلْكٍ".
مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نکاح سے پہلے طلاق نہیں، اور ملکیت سے پہلے آزادی نہیں۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 11277، ومصباح الزجاجة: 723) (حسن صحیح)» ‏‏‏‏ (سند میں ہشام بن سعد ضعیف راوی ہیں، اور علی بن الحسین مختلف فیہ، لیکن شواہد کی بناء پر یہ حدیث صحیح ہے، نیز ملاحظہ ہو: الإرواء: 7/ 152)

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 925  
´طلاق کا بیان`
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں طلاق، مگر نکاح کے بعد اور اسی طرح آزادی نہیں مگر ملکیت کے بعد۔ اسے ابو یعلیٰ نے روایت کیا ہے اور حاکم نے اسے صحیح کہا ہے حالانکہ یہ معلول ہے اور ابن ماجہ نے سیدنا مسور بن مخرمہ کے واسطہ سے اسی جیسی ایک حدیث روایت کی ہے کہ جس کی اسناد تو اچھی ہیں لیکن وہ بھی معلول ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 925»
تخریج:
«أخرجه أبويعلي: لم أجده، والحاكم:2 /420، وللحديث شواهد، وحديث المسور بن مخرمة: أخرجه ابن ماجه، الطلاق، حديث:2048 وهو حديث حسن.»
تشریح:
1. یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ آدمی نے جب طلاق اور آزادی کو معلق کیا‘ مثلاً: یوں کہا کہ وہ عورت جس سے میں نکاح کروں گااسے طلاق ہے یا یوں کہے کہ ہر وہ غلام جسے میں خریدوں گا وہ آزاد ہے تو نکاح کر لینے اور غلام خرید لینے کے بعد اس پر عمل نہیں کیا جائے گا‘ یعنی نکاح کے بعد عورت پر طلاق واقع نہیں ہوگی اور خریدنے کے بعد غلام بھی آزاد نہیں ہوگا بلکہ اس کا یہ قول لغو اور ضائع ہو گا۔
2.اس مسئلے کی بے شمار صورتیں ہیں‘ یہ حدیث مطلقاً تمام صورتوں کو شامل ہے۔
اسے عام رکھا جائے گا اور مختلف احوال میں فرق نہیں کیا جائے گا۔
3. یہ مسئلہ ان اختلافی مسائل میں سے ہے جو مشہور و معروف ہیں۔
جمہور تو کہتے ہیں کہ یہ طلاق اورآزادی قطعاً واقع نہیں ہوگی جبکہ احناف کہتے ہیں کہ بہرنوع یہ واقع ہو جائے گی۔
اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس میں تفصیل ہے اور مختلف احوال کے لحاظ سے فرق ہے‘ چنانچہ اگر کسی عورت کا نام لیا گیا ہو یا کسی گروہ ‘قبیلے‘ جگہ یا وقت کی تعیین کی جائے تو طلاق اور آزادی واقع ہو جائے گی۔
اگر یہ صورت نہ ہو تو پھر نہیں۔
لیکن ظاہر یہ ہے کہ ایسی صورت میں طلاق ہر گز واقع نہیں ہوگی جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 925