سنن ابن ماجه
كتاب الكفارات -- کتاب: قسم اور کفاروں کے احکام و مسائل
17. بَابُ : مَنْ نَذَرَ نَذْرًا وَلَمْ يُسَمِّهِ
باب: جس نے نذر مانی لیکن یہ نہیں بتایا کہ وہ کس چیز کی نذر ہے تو کیا کرے؟
حدیث نمبر: 2128
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ مُحَمَّدٍ الصَّنْعَانِيُّ ، حَدَّثَنَا خَارِجَةُ بْنُ مُصْعَبٍ ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَشَجِّ ، عَنْ كُرَيْبٍ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" مَنْ نَذَرَ نَذْرًا وَلَمْ يُسَمِّهِ، فَكَفَّارَتُهُ كَفَّارَةُ يَمِينٍ وَمَنْ نَذَرَ نَذْرًا لَمْ يُطِقْهُ، فَكَفَّارَتُهُ كَفَّارَةُ يَمِينٍ وَمَنْ نَذَرَ نَذْرًا أَطَاقَهُ فَلْيَفِ بِهِ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے نذر مانی اور اس کی تعیین نہ کی، تو اس کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے، اور جس نے ایسی نذر مانی جس کے پورا کرنے کی طاقت نہیں رکھتا تو اس کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے، اور جس نے ایسی نذر مانی جس کے پورا کرنے کی طاقت ہو تو اس کو پورا کرے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن ابی داود/الأیمان والنذور 30 (3322)، (تحفة الأشراف: 6341) (ضعیف جدا)» ‏‏‏‏ (سند میں خارجہ بن مصعب متروک راوی ہے جو کذابین سے تدلیس کرتا تھا، صحیح یہ ہے کہ یہ موقوف ہے، نیز ملاحظہ ہو: الإرواء: 8/ 211)

قال الشيخ الألباني: ضعيف جدا
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3322  
´جس نے ایسی نذر مانی جس کو پوری کرنے کی وہ طاقت نہیں رکھتا تو کیا کرے؟`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص غیر نامزد نذر مانے تو اس کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے اور جو کسی گناہ کی نذر مانے تو اس کا (بھی) کفارہ وہی ہے جو قسم کا ہے، اور جو کوئی ایسی نذر مانے جسے پوری کرنے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو اس کا کفارہ وہی ہے جو قسم کا کفارہ ہے، اور جو کوئی ایسی نذر مانے جسے وہ پوری کر سکتا ہو تو وہ اسے پوری کرے۔‏‏‏‏ ابوداؤد کہتے ہیں: وکیع وغیرہ نے اس حدیث کو عبداللہ بن سعید (بن ابوہند) سے ابن عباس رضی اللہ عنہما پر موقوفاً روایت کیا ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب الأيمان والنذور /حدیث: 3322]
فوائد ومسائل:
یہ روایت موقوف ہے۔
اس لئے مرفوع کے مقابلے میں حجت نہیں۔
صحیح مرفوع روایات سے جو ثابت ہے۔
اس کا خلاصہ امام شوکانی نےاس طرح بیان کیا ہے کہ اگرمعین نذر نیکی سے متعلق ہو لیکن اس پر عمل طاقت سے باہر ہو۔
تو اس میں قسم کا کا کفارہ ہے۔
اور اگر وہ انسانی طاقت و وسعت کے اندر ہو تو اس کا پورا کرنا واجب ہے۔
چاہے اس کا تعلق بدن سے ہویا مال سے اور اگر وہ نذر کسی معصیت کی ہو۔
تو اسے پورا نہ کرنا واجب ہے۔
لیکن اس میں کفارے کی ادایئگی ضروری نہیں اگر اس نذر کا تعلق مباح (جائز) امر سے ہو وہ انسانی طاقت سے بالا بھی نہ ہو۔
تو وہ نذ ر بھی منعقد ہوجائے گی۔
اور اس میں کفارے کی ادائیگی بھی لازمی ہوگی۔
جیسے پیدل چلنے والی صحابیہ کو آپ نے پیدل حج پر جانے سے منع فرمایا۔
اور اسے سوار ہونے کا کفارہ ادا کرنے کا حکم دیا۔
اور اگر وہ کام انسانی طاقت سے بالا ہو تو اس میں کفارہ واجب ہے۔
(نیل الأوطار،  أبواب الأیمان،کفارتھا، باب من نذر نزرا لم یسعه ولایطیقه: 278/8)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3322