سنن ابن ماجه
كتاب التجارات -- کتاب: تجارت کے احکام و مسائل
25. بَابُ : بَيْعِ الْمُزَايَدَةِ
باب: نیلام (بولی) کا بیان۔
حدیث نمبر: 2198
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ ، حَدَّثَنَا الْأَخْضَرُ بْنُ عَجْلَانَ ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ الْحَنَفِيُّ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، أَنَّ رَجُلًا مِنَ الْأَنْصَارِ جَاءَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْأَلُهُ، فَقَالَ:" لَكَ فِي بَيْتِكَ شَيْءٌ"، قَالَ: بَلَى، حِلْسٌ نَلْبَسُ بَعْضَهُ وَنَبْسُطُ بَعْضَهُ وَقَدَحٌ نَشْرَبُ فِيهِ الْمَاءَ، قَالَ:" ائْتِنِي بِهِمَا"، قَالَ: فَأَتَاهُ بِهِمَا، فَأَخَذَهُمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ، ثُمَّ قَالَ:" مَنْ يَشْتَرِي هَذَيْنِ؟"، فَقَالَ رَجُلٌ: أَنَا آخُذُهُمَا بِدِرْهَمٍ، قَالَ:" مَنْ يَزِيدُ عَلَى دِرْهَمٍ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا"، قَالَ رَجُلٌ: أَنَا آخُذُهُمَا بِدِرْهَمَيْنِ، فَأَعْطَاهُمَا إِيَّاهُ وَأَخَذَ الدِّرْهَمَيْنِ فَأَعْطَاهُمَا الْأَنْصَارِيَّ، وَقَالَ:" اشْتَرِ بِأَحَدِهِمَا طَعَامًا، فَانْبِذْهُ إِلَى أَهْلِكَ وَاشْتَرِ بِالْآخَرِ قَدُومًا، فَأْتِنِي بِهِ"، فَفَعَلَ، فَأَخَذَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَشَدَّ فِيهِ عُودًا بِيَدِهِ، وَقَالَ:" اذْهَبْ فَاحْتَطِبْ وَلَا أَرَاكَ خَمْسَةَ عَشَرَ يَوْمًا"، فَجَعَلَ يَحْتَطِبُ وَيَبِيعُ فَجَاءَ وَقَدْ أَصَابَ عَشْرَةَ دَرَاهِمَ، فَقَالَ:" اشْتَرِ بِبَعْضِهَا طَعَامًا وَبِبَعْضِهَا ثَوْبًا"، ثُمَّ قَالَ:" هَذَا خَيْرٌ لَكَ مِنْ أَنْ تَجِيءَ وَالْمَسْأَلَةُ نُكْتَةٌ فِي وَجْهِكَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، إِنَّ الْمَسْأَلَةَ لَا تَصْلُحُ إِلَّا لِذِي فَقْرٍ مُدْقِعٍ أَوْ لِذِي غُرْمٍ مُفْظِعٍ، أَوْ دَمٍ مُوجِعٍ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انصار کا ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا، وہ آپ سے کوئی چیز چاہ رہا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: تمہارے گھر میں کوئی چیز ہے؟، اس نے عرض کیا: جی ہاں! ایک کمبل ہے جس کا ایک حصہ ہم اوڑھتے اور ایک حصہ بچھاتے ہیں، اور ایک پیالہ ہے جس سے ہم پانی پیتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ دونوں چیزیں میرے پاس لے آؤ، وہ گیا، اور ان کو لے آیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو اپنے ہاتھ میں لیا پھر فرمایا: انہیں کون خریدتا ہے؟ ایک شخص بولا: میں یہ دونوں چیزیں ایک درہم میں لیتا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک درہم پر کون بڑھاتا ہے؟ یہ جملہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو یا تین بار فرمایا، ایک شخص بولا: میں انہیں دو درہم میں لیتا ہوں، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دونوں چیزیں اس شخص کے ہاتھ بیچ دیں، پھر دونوں درہم انصاری کو دئیے اور فرمایا: ایک درہم کا اناج خرید کر اپنے گھر والوں کو دے دو، اور دوسرے کا ایک کلہاڑا خرید کر میرے پاس لاؤ، اس نے ایسا ہی کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کلہاڑے کو لیا، اور اپنے ہاتھ سے اس میں ایک لکڑی جما دی اور فرمایا: جاؤ اور لکڑیاں کاٹ کر لاؤ (اور بیچو) اور پندرہ دن تک میرے پاس نہ آؤ، چنانچہ وہ لکڑیاں کاٹ کر لانے لگا اور بیچنے لگا، پھر وہ آپ کے پاس آیا، اور اس وقت اس کے پاس دس درہم تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کچھ کا غلہ خرید لو، اور کچھ کا کپڑا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ تمہارے لیے اس سے بہتر ہے کہ تم قیامت کے دن اس حالت میں آؤ کہ سوال کرنے کی وجہ سے تمہارے چہرے پر داغ ہو، یاد رکھو سوال کرنا صرف اس شخص کے لیے درست ہے جو انتہائی درجہ کا محتاج ہو، یا سخت قرض دار ہو یا تکلیف دہ خون بہا کی ادائیگی میں گرفتار ہو ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن ابی داود/الزکاة 26 (1641)، سنن الترمذی/البیوع 10 (1218)، سنن النسائی/البیوع 20 (4512)، (تحفة الأشراف: 978)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/100، 114، 126) (ضعیف) (سند میں ابوبکر حنفی مجہول راوی ہیں، نیز ملاحظہ ہو: الإرواء: 1289)۔» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: انتہائی درجے کی محتاجی یہ ہے کہ ایک دن اور ایک رات کی خواک اس کے پاس کھانے کے لئے نہ ہو، اور بعض لوگوں نے کہا ہے کہ بہ قدر نصاب اس کے پاس مال نہ ہو۔ سخت قرض داری یہ ہے کہ قرضہ اس کے مال سے زیادہ ہو۔ تکلیف دہ خون کا مطلب یہ ہے کہ کسی کو قتل کیا ہو، اور مقتول کے وارث دیت پر راضی ہو گئے ہوں لیکن اس کے پاس رقم نہ ہو کہ دیت ادا کر سکے، مقتول کے وارث اس کو ستا رہے ہوں اور دیت کا تقاضا کر رہے ہوں تو ایسے شخص کے لئے سوال کرنا جائز ہے۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2198  
´نیلام (بولی) کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انصار کا ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا، وہ آپ سے کوئی چیز چاہ رہا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: تمہارے گھر میں کوئی چیز ہے؟، اس نے عرض کیا: جی ہاں! ایک کمبل ہے جس کا ایک حصہ ہم اوڑھتے اور ایک حصہ بچھاتے ہیں، اور ایک پیالہ ہے جس سے ہم پانی پیتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ دونوں چیزیں میرے پاس لے آؤ، وہ گیا، اور ان کو لے آیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو اپنے ہاتھ میں لیا پھر فرمایا: انہیں کون خریدتا ہے؟ ایک شخص بولا: میں یہ دونوں چیز۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2198]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  جہاں تک ہو سکے محنت کرکے روزی کمانا اور سوال سے بچنا ضروری ہے۔
رسول اللہﷺ نے فرمایا:
اگر کوئی آدمی صبح کے وقت اپنی پیٹ پر ایندھن اٹھا لائے (اسے بیچ کر حاصل ہونے والی رقم سے)
صدقہ کرے، اور لوگوں سے (مانگنے سے)
مستغنی ہو جائے، یہ اس کے لیے اس بات سے بہتر ہے کہ کسی (غنی)
آدمی سے مانگے، وہ چاہے اسے کچھ دے چاہے نہ دے۔ (صحيح مسلم، الزكاة، باب كراهة المسالة للناس، حديث: 1042)

(2)
جس شخص کے لیے سوال سے بچنا ممکن ہو، پھر بھی وہ مانگے تو قیامت کے دن اسے سز ا ملے گی۔
اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا:
آدمی لوگوں سے مانگتا ہے حتیٰ کہ (اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ)
وہ قیامت کے دن اس حال میں حاضر ہوگا کہ اس کے چہرے پر گوشت بالکل نہیں ہوگا۔ (صحیح مسلم، حدیث: 1040)

(3)
  مصیبت زدہ مالی تعاون کے لیے اپیل کر سکتا ہے لیکن گداگری کو پیشہ بنانا حرام ہے۔
رسول اللہﷺ نے فرمایا:
سوال کرنا صرف تین میں سے کسی ایک آدمی کے لیے جائز ہے۔
ایک وہ شخص جس نے (کسی کے معاملات درست کرنے کے لیے)
قرض لیا، (جو اس کی طاقت سے بڑھ کر تھا)
اس کے لیے سوال کرنا جائز ہے حتی کی اتنی رقم حاصل کرلے، پھر رک جائے، ایک وہ شخص جس پر ایسی آفت آئی کہ سارا مال تباہ ہو گیا۔
اس کے لیے مانگنا جائز ہے حتیٰ کہ زندگی کا سہارا (ضروریات پوری کرنے کے لیے کسی روزگار کا ذریعہ)
پالے۔
ایک وہ شخص جو فقر و فاقہ کا شکار ہو گیا حتیٰ کہ اس کی قوم کے تین عقل مند (معتبر)
افراد یہ کہیں کہ فلاں شخص وقعی فاقہ کشی کا شکار ہے۔ (صحيح مسلم، الزكاة، باب من تحل له المسألة، حديث: 1044)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2198   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1641  
´کن صورتوں میں سوال (مانگنا) جائز ہے؟`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک انصاری نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مانگنے کے لیے آیا، آپ نے پوچھا: کیا تمہارے گھر میں کچھ نہیں ہے؟، بولا: کیوں نہیں، ایک کمبل ہے جس میں سے ہم کچھ اوڑھتے ہیں اور کچھ بچھا لیتے ہیں اور ایک پیالا ہے جس میں ہم پانی پیتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ دونوں میرے پاس لے آؤ، چنانچہ وہ انہیں آپ کے پاس لے آیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو اپنے ہاتھ میں لیا اور فرمایا: یہ دونوں کون خریدے گا؟، ایک آدمی بولا: انہیں میں ایک درہم میں خرید لیتا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ایک درہم سے زیادہ کون دے رہا ہے؟، دو بار یا تین بار، تو ایک شخص بولا: میں انہیں دو درہم میں خریدتا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے وہ دونوں چیزیں دے دیں اور اس سے درہم لے کر انصاری کو دے دئیے اور فرمایا: ان میں سے ایک درہم کا غلہ خرید کر اپنے گھر میں ڈال دو اور ایک درہم کی کلہاڑی لے آؤ، وہ کلہاڑی لے کر آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے اس میں ایک لکڑی ٹھونک دی اور فرمایا: جاؤ لکڑیاں کاٹ کر لاؤ اور بیچو اور پندرہ دن تک میں تمہیں یہاں نہ دیکھوں، چنانچہ وہ شخص گیا، لکڑیاں کاٹ کر لاتا اور بیچتا رہا، پھر آیا اور دس درہم کما چکا تھا، اس نے کچھ کا کپڑا خریدا اور کچھ کا غلہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ تمہارے لیے بہتر ہے اس سے کہ قیامت کے دن مانگنے کی وجہ سے تمہارے چہرے میں کوئی داغ ہو، مانگنا صرف تین قسم کے لوگوں کے لیے درست ہے: ایک تو وہ جو نہایت محتاج ہو، خاک میں لوٹتا ہو، دوسرے وہ جس کے سر پر گھبرا دینے والے بھاری قرضے کا بوجھ ہو، تیسرے وہ جس پر خون کی دیت لازم ہو اور وہ دیت ادا نہ کر سکتا ہو اور اس کے لیے وہ سوال کرے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الزكاة /حدیث: 1641]
1641. اردو حاشیہ:
➊ حکومت اسلامیہ اور رفاہی تنظیموں کوچاہیے کہ ایسے پروگرام پیش کریں۔جن سے لوگ ہنر مند بنیں اور برسر روزگار ہوں۔
➋ علماء کو چاہیے کہ محنت مذدوری کی فضیلت واضح کریں۔ اور مانگنے کی ذلت اور رسوائی بتایئں۔
➌ پڑھے لکھے جوانوں کا ہر حال حکومت سے اعلیٰ ملاذمتوں پر اصرار کسی طرح روا نہیں۔
➍ باوقار محنت مذدوری میں کوئی عیب نہیں۔
➎ مربی حضرات کو بلند نگاہ اوردور اندیش ہونا چاہیے۔اللہ نے افراد کی طبعیتیں مختلف بنائی ہیں۔ بعض کےلئے محنت مذدوری اور غنا لازمی ہوتا ہے۔اور بعض قناعت پر راضی اور مطمئن ہوتے ہیں۔لہذا ہر ایک سے بہتر کام لیاجائے۔مثلا طلب علوم شرعیہ اور اس کی دعوت واشاعت وغیرہ۔رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کسب ومحنت کی تلقین نہیں فرمائی تھی۔ بخلاف اس شخص کے جو سوال کرنے آیا تھا۔
➏ نیلامی کی بیع جائز ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1641