سنن ابن ماجه
كتاب التجارات -- کتاب: تجارت کے احکام و مسائل
49. بَابُ : مَنْ قَالَ لاَ رِبَا إِلاَّ فِي النَّسِيئَةِ
باب: سود صرف ادھار میں ہے کے قائلین کی دلیل۔
حدیث نمبر: 2257
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ ، يَقُولُ:" الدِّرْهَمُ بِالدِّرْهَمِ وَالدِّينَارُ بِالدِّينَارِ"، فَقُلْتُ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ، يَقُولُ غَيْرَ ذَلِكَ. (حديث موقوف) (حديث مرفوع) قَالَ: أَمَا إِنِّي لَقِيتُ ابْنَ عَبَّاسٍ ، فَقُلْتُ أَخْبِرْنِي عَنْ هَذَا الَّذِي تَقُولُ فِي الصَّرْفِ أَشَيْءٌ سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمْ شَيْءٌ وَجَدْتَهُ فِي كِتَابِ اللَّهِ؟، فَقَالَ: مَا وَجَدْتُهُ فِي كِتَابِ اللَّهِ وَلَا سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَكِنْ أَخْبَرَنِي أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" إِنَّمَا الرِّبَا فِي النَّسِيئَةِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا کہ درہم کو درہم سے، اور دینار کو دینار سے برابر برابر بیچنا چاہیئے، تو میں نے ان سے کہا کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کو کچھ اور کہتے سنا ہے، ابوسعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: تو میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے جا کر ملا، اور میں نے ان سے کہا: آپ بیع صرف کے متعلق جو کہتے ہیں مجھے بتائیے، کیا آپ نے کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے؟ کتاب اللہ (قرآن) میں اس سلسلہ میں آپ کو کوئی چیز ملی ہے؟ اس پر وہ بولے: نہ تو میں نے اس کو کتاب اللہ (قرآن) میں پایا ہے، اور نہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی سے سنا ہے، البتہ مجھے اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما نے بتایا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: سود صرف ادھار میں ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/البیوع 79 (2178، 2179)، صحیح مسلم/المساقاة 18 (1596)، سنن النسائی/البیوع 48 (4584)، (تحفة الأشراف: 94)، مسند احمد (5/200، 202، 204، 206، 209)، سنن الدارمی/البیوع 42 (2622) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: اہل حدیث اور جمہور علماء کا مذہب یہ ہے کہ ان چھ چیزوں میں جن کا ذکر حدیث میں ہے، جب ہر ایک اپنی جنس کے بدلے بیچی جائے تو اس میں کم و بیش، اسی طرح ایک طرف نسیئہ یعنی میعاد ہونا، دونوں منع ہیں، اور دونوں سود ہیں، اور جب ان میں سے کوئی دوسری جنس کے بدل بیچی جائے جیسے چاندی سونے کے بدلے، یا گیہوں جو کے بدلے، تو کمی و بیشی جائز ہے، لیکن نسیئہ حرام ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2257  
´سود صرف ادھار میں ہے کے قائلین کی دلیل۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا کہ درہم کو درہم سے، اور دینار کو دینار سے برابر برابر بیچنا چاہیئے، تو میں نے ان سے کہا کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کو کچھ اور کہتے سنا ہے، ابوسعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: تو میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے جا کر ملا، اور میں نے ان سے کہا: آپ بیع صرف کے متعلق جو کہتے ہیں مجھے بتائیے، کیا آپ نے کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے؟ کتاب اللہ (قرآن) میں اس سلسلہ میں آپ کو کوئی چیز ملی ہے؟ اس پر وہ بولے: نہ تو میں نے اس کو کتاب اللہ (قرآن) میں پایا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2257]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
سونے کا چاندی سے یا چاندی کا سونے سے تبادلہ دست بدست ہونا چاہیے۔

(2)
مختلف ممالک کی کرنسی کا تبادلہ بھی موجود شرح کے مطابق ہاتھوں ہاتھ ہونا چاہیے۔
اگر کوئی کہے کہ میرے پاس امریکی ڈالر ہیں اور میں ان کے بدلے سعودی ریال لینا چاہتا ہوں، ‘ دوسرا شخص کہے کہ مجھے ڈالر دے دو، میں ان کے بدلے میں اتنے ریال تمہیں کل دے دوں گا، یہ درست نہیں۔

(3)
صحابہ کرام ؓ حدیث کو حجت سمجھتے تھے، اور جو حدیث رسول اللہ ﷺ سے براہ راست نہ سنی ہو بلکہ کسی دوسرے شخص کے واسطے سے پہنچے اس پر عمل کرنا بھی ضروری سمجھتے تھے۔

(4)
سود صرف ادھار میں ہوتا ہے‘ یہ اس صورت میں ہے جب تبادلہ کی جانے والی اشیاء مختلف اجناس سے تعلق رکھتے ہوں‘ مثلاً:
سونا اور چاندی، یا گندم اور کھجور۔
ان کا باہمی تبادلہ کمی بیشی کے ساتھ درست ہے۔
ایک گرام سونے کے بدلے میں دس پندرہ گرام چاندی کا تبادلہ یا ایک من گندم کے بدلے میں دو من جو کا تبادلہ جائز ہے بشرطیکہ دونوں طرف سے نقد ادائیگی ہو  ایک ہی چیز کا تبادلہ کمی بیشی کے ساتھ نقد بھی درست نہیں۔
ایک من اچھی گندم کے بدلے میں دو من ہلکی قسم کی گندم لینا دینا جائز نہیں اگرچہ دونوں طرف سے گندم فوراً ادا کر دی جائے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2257