صحيح البخاري
كِتَاب الْوُضُوءِ -- کتاب: وضو کے بیان میں
43. بَابُ وُضُوءِ الرَّجُلِ مَعَ امْرَأَتِهِ وَفَضْلِ وَضُوءِ الْمَرْأَةِ:
باب: خاوند کا اپنی بیوی کے ساتھ وضو کرنا اور عورت کا بچا ہوا پانی استعمال کرنا جائز ہے۔
وَتَوَضَّأَ عُمَرُ بِالْحَمِيمِ مِنْ بَيْتِ نَصْرَانِيَّةٍ.
‏‏‏‏ عمر رضی اللہ عنہ نے گرم پانی سے اور عیسائی عورت کے گھر کے پانی سے وضو کیا۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري Q193  
´خاوند کا اپنی بیوی کے ساتھ وضو کرنا اور عورت کا بچا ہوا پانی استعمال کرنا`
«. . . وَتَوَضَّأَ عُمَرُ بِالْحَمِيمِ مِنْ بَيْتِ نَصْرَانِيَّةٍ. . . .»
. . . ‏‏‏‏ عمر رضی اللہ عنہ نے گرم پانی سے اور عیسائی عورت کے گھر کے پانی سے وضو کیا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/بَابُ وُضُوءِ الرَّجُلِ مَعَ امْرَأَتِهِ وَفَضْلِ وَضُوءِ الْمَرْأَةِ:: Q193]

تشریح:
یہ دو جدا جدا اثر ہیں پہلے کو سعید بن منصور نے اور دوسرے کو شافعی اور عبدالرزاق نے نکالا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ کی غرض صرف یہ ہے کہ جیسے بعض لوگ عورت کے بچے ہوئے پانی سے طہارت کرنا منع سمجھتے تھے، اسی طرح گرم پانی سے یا کافر کے گھر کے پانی سے بھی منع سمجھتے تھے۔ حالانکہ یہ غلط ہے۔ گرم پانی سے بھی اور کافر کے گھر کے پانی سے بھی بشرطیکہ اس کا پاک ہونا یقینی ہو، طہارت کی جا سکتی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 193