سنن ابن ماجه
كتاب التجارات -- کتاب: تجارت کے احکام و مسائل
67. بَابُ : مَنْ مَرَّ عَلَى مَاشِيَةِ قَوْمٍ أَوْ حَائِطٍ هَلْ يُصِيبُ مِنْهُ
باب: کسی کے ریوڑ یا باغ سے گزر ہو تو کیا آدمی اس سے کچھ لے سکتا ہے؟
حدیث نمبر: 2299
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ ، وَيَعْقُوبُ بْنُ حُمَيْدِ بْنِ كَاسِبٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ أَبِي الْحَكَمِ الْغِفَارِيَّ ، قَالَ: حَدَّثَتْنِي جَدَّتِي ، عَنْ عَمِّ أَبِيهَا رَافِعِ بْنِ عَمْرٍو الْغِفَارِيِّ ، قَالَ: كُنْتُ وَأَنَا غُلَامٌ أَرْمِي نَخْلَنَا، أَوْ قَالَ: نَخْلَ الْأَنْصَارِ، فَأُتِيَ بِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" يَا غُلَامُ"، وَقَالَ ابْنُ كَاسِبٍ، فَقَالَ: يَا بُنَيَّ لِمَ تَرْمِي النَّخْلَ؟"، قَالَ: قُلْتُ: آكُلُ، قَالَ:" فَلَا تَرْميِ النَّخْلَ وَكُلْ مِمَّا يَسْقُطُ فِي أَسَافِلِهَا"، قَالَ: ثُمَّ مَسَحَ رَأْسِي، وَقَالَ:" اللَّهُمَّ أَشْبِعْ بَطْنَهُ".
رافع بن عمرو غفاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اور ایک لڑکا دونوں مل کر اپنے یا انصار کے کھجور کے درخت پر پتھر مار رہے تھے، تو مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لایا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لڑکے! (ابن کاسب کا قول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایا: میرے بیٹے!) تم کیوں کھجور کے درختوں پر پتھر مارتے ہو؟، رافع بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ میں (کھجور) کھاؤں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: درختوں پر پتھر نہ مارو جو نیچے گرے ہوں انہیں کھاؤ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور فرمایا: اے اللہ! اسے آسودہ کر دے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الجہاد 94 (2622)، سنن الترمذی/البیوع 54 (1288)، (تحفة الأشراف: 3595) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (سند میں ابن ابی الحکم مستور اور جدتی (دادی) مبہم روایہ ہیں نیزملاحظہ ہو: ضعیف أبی داود: 453)

قال الشيخ الألباني: ضعيف
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1288  
´راہی کے لیے راستہ کے درخت کا پھل کھانے کی رخصت کا بیان۔`
رافع بن عمرو رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں انصار کے کھجور کے درختوں پر پتھر مارتا تھا، ان لوگوں نے مجھے پکڑ لیا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گئے آپ نے پوچھا: رافع! تم ان کے کھجور کے درختوں پر پتھر کیوں مارتے ہو؟ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! بھوک کی وجہ سے، آپ نے فرمایا: پتھر مت مارو، جو خودبخود گر جائے اسے کھاؤ اللہ تمہیں آسودہ اور سیراب کرے۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب البيوع/حدیث: 1288]
اردو حاشہ:
نوٹ:
(سند میں صالح اوران کے باپ ابوجبیر دونوں مجہول ہیں،
اور ابوداؤد وابن ماجہ کی سند میں ابن ابی الحکم مجہول ہیں نیز ان کی دادی مبہم ہیں)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1288