سنن ابن ماجه
كتاب التجارات -- کتاب: تجارت کے احکام و مسائل
67. بَابُ : مَنْ مَرَّ عَلَى مَاشِيَةِ قَوْمٍ أَوْ حَائِطٍ هَلْ يُصِيبُ مِنْهُ
باب: کسی کے ریوڑ یا باغ سے گزر ہو تو کیا آدمی اس سے کچھ لے سکتا ہے؟
حدیث نمبر: 2301
حَدَّثَنَا هَدِيَّةُ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ ، وَأَيُّوبُ بْنُ حَسَّانَ الْوَاسِطِيُّ ، وعلي بن سلمة قَالُوا: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمٍ الطَّائِفِيُّ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا مَرَّ أَحَدُكُمْ بِحَائِطٍ، فَلْيَأْكُلْ وَلَا يَتَّخِذْ خُبْنَةً".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی کسی باغ سے گزرے تو (پھل) کھائے، اور کپڑے میں نہ باندھے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/البیوع 54 (1287)، (تحفة الأشراف: 8222) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: جن احادیث میں مالک کی اجازت کے بغیر دودھ یا پھل لینے کی اجازت ہے، اکثر علماء کے نزدیک یہ منسوخ ہیں، اور ان کی ناسخ وہ احادیث ہیں جن میں مسلمان کی اجازت کے بغیر اس کا مال لینا حرام ہے، اور بعضوں نے کہا کہ یہ حدیثیں اس حالت پر محمول ہیں کہ جب آدمی بھوک کے مارے بے تاب ہو یعنی مرنے کے قریب ہو، مخمصہ کی حالت ہو تو ایسی حالت میں حرام حلال ہو جاتا ہے، پھر پھل یا دودھ بھی بے اجازت کھا پی لینا جائز ہو گا،لیکن ضروری ہے کہ صرف اتنا لے جس سے جان بچ جائے، اور ضرورت سے زیادہ اس کا مال خراب نہ کرے نہ اپنے ساتھ باندھ کر لے جائے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2301  
´کسی کے ریوڑ یا باغ سے گزر ہو تو کیا آدمی اس سے کچھ لے سکتا ہے؟`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی کسی باغ سے گزرے تو (پھل) کھائے، اور کپڑے میں نہ باندھے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2301]
اردو حاشہ:
فوائد  و مسائل:

(1)
بھوک مٹانے کے لیے مجبوری کے وقت کسی کے باغ سے پھل کھایا جا سکتا ہے۔

(2)
ضرورت سے زائد پھل توڑنا اور کھانے کے بعد بچا ہوا ساتھ لے جانا جائز نہیں بلکہ یہ چوری میں شامل ہے۔

(3)
اگر وہ ساتھ لے جائے تو اسے جرمانہ بھی ہو گا اور جسمانی سزا بھی دی جائے گی۔
سنن بیہقی کی روایت کے مطابق مالی جرمانہ یہ ہے کہ چوری شدہ مال کی قیمت سے دگنا وصول کیا جائے اور جسمانی سزا یہ ہے کہ چند کوڑے مارے جائیں دیکھیے: (سبل السلام شرح بلوغ المرام، كتاب الحدود، باب حد السرقة، حديث: 11)

(4)
اگر چوری شدہ مال کی قیمت چوتھائی دینار (ایک حاشہ ایک رتی۔
تقریباً ایک گرام سونا)

کے برابر ہو تو چور کا ہاتھ کاٹا جائے گا۔ دیکھیے: (سنن ابن ماجة، حديث: 2585)

(5)
ہمارے فاضل محقق نے مذکورہ روایت کو سنداً ضعیف کہا ہے لیکن تحقیق و تخریج میں اس پر کافی بحث کی ہے اور آخر میں قوی سند کے ساتھ حضرت عمررضی اللہ عنہ سےمروی ایک ورایت پیش کی ہے دو مذکورہ روایت کے ہم معنی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے شیخ رحمہ اللہ کے نزدیک مذکورہ روایت صرف سنداً ضعیف ہے، معناً صحیح ہے۔
واللہ أعلم۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2301