سنن ابن ماجه
كتاب الأحكام -- کتاب: قضا کے احکام و مسائل
4. بَابُ : لاَ يَحْكُمُ الْحَاكِمُ وَهُوَ غَضْبَانُ
باب: غصہ کی حالت میں حاکم و قاضی فیصلہ نہ کرے۔
حدیث نمبر: 2316
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ ، وَأَحْمَدُ بْنُ ثَابِتٍ الْجَحْدَرِيُّ ، قَالُوا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَبِي بَكْرَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" لَا يَقْضِي الْقَاضِي بَيْنَ اثْنَيْنِ وَهُوَ غَضْبَانُ"، قَالَ هِشَامٌ فِي حَدِيثِهِ: لَا يَنْبَغِي لِلْحَاكِمِ أَنْ يَقْضِيَ بَيْنَ اثْنَيْنِ وَهُوَ غَضْبَانُ.
ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قاضی غصے کی حالت میں دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ نہ کرے ۱؎۔ ہشام کی روایت کے الفاظ ہیں: حاکم کے لیے مناسب نہیں کہ وہ غصے کی حالت میں دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ کرے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الأحکام 13 (7158)، صحیح مسلم/الأقضیة 7 (1717)، سنن ابی داود/الأقضیة 9 (3589)، سنن الترمذی/الأحکام 7 (1334)، سنن النسائی/آداب القضاة 17 (5408)، 31 (5423)، (تحفة الأشراف: 11676)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/36، 37، 38، 46، 52) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو غصہ کی حالت میں زبیر رضی اللہ عنہ کا فیصلہ ایک انصاری کے ساتھ کیا تو یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت تھی کیونکہ آپ حالت غضب اور رضا دونوں میں معصوم تھے، اور ظاہر یہ ہے کہ ممانعت تحریمی ہے، اس پر جمہور علماء نے یہ کہا ہے کہ اگر کوئی غصہ کی حالت میں فیصلہ کرے اور وہ فیصلہ حق ہو تو صحیح ہو گا، علامہ ابن القیم کہتے ہیں کہ مفتی سخت غصہ، یا زیادہ بھوک، یا زیادہ قلق، یا پریشان کن خوف و ڈر، یا نیند کا غلبہ، یا پاخانہ پیشاب کی حاجت میں فتوی نہ دے، اسی طرح جب دل اور طرف لگا ہوا ہو، بلکہ جب آدمی یہ محسوس کرے کہ مذکورہ امور کی وجہ سے وہ اعتدال کی حالت سے باہر چلا گیا ہے، اور اس کی تحقیق و جستجو کی قدرت متاثر ہو گئی ہے، تو اس کو فتویٰ سے رک جانا چاہئے، اس پر بھی اگر وہ ان حالتوں میں فتویٰ دیتا ہے تو اس کا فتویٰ صحیح ہے لیکن اگر ایسی حالت میں فیصلہ کرتا ہے، تو کیا اس کا فیصلہ نافذ ہو گا، یا نہیں نافذ ہو گا؟ اس بارے میں امام احمد کے مذہب میں تین اقوال ہیں: پہلا یہ کہ نافذ ہو گا، دوسرا یہ کہ نافذ نہیں ہو گا، تیسرا یہ کہ مسئلہ کو سمجھنے کے بعد اگر غصہ ہو تو اس میں نافذ ہو گا، اور اگر مسئلہ کے سمجھنے سے پہلے غصہ ہو تو نافذ نہیں ہو گا۔ (ملاحظہ ہو: الروضۃ الندیۃ۳/۲۳۳)

قال الشيخ الألباني: صحيح باللفظ الأول
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2316  
´غصہ کی حالت میں حاکم و قاضی فیصلہ نہ کرے۔`
ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قاضی غصے کی حالت میں دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ نہ کرے ۱؎۔ ہشام کی روایت کے الفاظ ہیں: حاکم کے لیے مناسب نہیں کہ وہ غصے کی حالت میں دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ کرے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الأحكام/حدیث: 2316]
اردو حاشہ:
فوائد  و مسائل:

(1)
  غصے کی حالت میں انسان کی ذہنی حالت درست نہیں رہتی اور جذبات کی وجہ سے معاملات کے تمام پہلوؤں پر غور کرنا ممکن نہیں رہتا اس لیے خطرہ ہوتا ہے کہ اس حالت میں دیا ہوا فیصلہ درست نہیں ہو گا۔

(2)
نبی اکرمﷺ اس بات سے معصوم تھے کہ جذبات یا غصے میں غلط فیصلہ دیں اس لیے نبی ﷺ ناراضی محسوس فرما رہے تھے دیکھیے: (صحیح البخاري، الأحکام، باب ھل یقضی القاضی او یفتی وھو غضبان؟حدیث: 7159)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2316   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1334  
´قاضی غصہ کی حالت میں فیصلہ نہ کرے۔`
عبدالرحمٰن بن ابی بکرہ کہتے ہیں کہ میرے باپ نے عبیداللہ بن ابی بکرہ کو جو قاضی تھے خط لکھا کہ تم غصہ کی حالت میں فریقین کے بارے میں فیصلے نہ کرو، کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: حاکم غصہ کی حالت میں فریقین کے درمیان فیصلے نہ کرے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الأحكام/حدیث: 1334]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس لیے کہ غصے کی حالت میں فریقین کے بیانات پرصحیح طورسے غوروفکرنہیں کیا جا سکتا،
اسی پرقیاس کرتے ہوئے ہر اس حالت میں جوفکرانسانی میں تشویش کا سبب ہو فیصلہ کرنا مناسب نہیں اس لیے کہ ذہنی تشویش کی حالت میں صحیح فیصلہ تک پہنچنا مشکل ہوتا ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1334   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3589  
´غصے کی حالت میں قاضی کا فیصلہ کیسا ہے؟`
ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے اپنے بیٹے کے پاس لکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: غصے کی حالت میں قاضی دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ نہ کرے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الأقضية /حدیث: 3589]
فوائد ومسائل:
فائدہ: طیش کی حالت میں انسان بالعموم حد اعتدال سے تجاوز کرجاتا ہے۔
تو اس کیفیت میں فیصلہ عین ممکن ہے کہ عدل کے خلاف ہو، لہذا اس سے بچنا ضروری ہے۔
انتہائی غم۔
شدید فکرمندی۔
کسی بیماری کے سبب تکلیف۔
اور درد اور اسی طرح کی کیفیتیں جن میں یکسوئی متاثر ہو غصے پر قیاس کی جایئں گی۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3589