سنن ابن ماجه
كتاب الأحكام -- کتاب: قضا کے احکام و مسائل
11. بَابُ : الرَّجُلاَنِ يَدَّعِيَانِ السِّلْعَةَ وَلَيْسَ بَيْنَهُمَا بَيِّنَةٌ
باب: ایک چیز کے دو دعوے دار ہوں اور کسی کے پاس گواہ نہ ہوں تو اس کی حکم کا بیان۔
حدیث نمبر: 2329
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ خِلَاسٍ ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنَّهُ ذَكَرَ أَنَّ رَجُلَيْنِ ادَّعَيَا دَابَّةً وَلَمْ يَكُنْ بَيْنَهُمَا بَيِّنَةٌ فَأَمَرَهُمَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَنْ يَسْتَهِمَا عَلَى الْيَمِينِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ذکر کیا کہ ایک جانور پر دو آدمیوں نے دعویٰ کیا، اور ان دونوں میں سے کسی کے پاس گواہ نہیں تھے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو قسم پر قرعہ اندازی کا حکم دیا ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن ابی داود/الأقضیة 22 (3616، 3617)، (تحفة الأشراف: 14662)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الشہادات 24 (2674)، مسند احمد (2/489، 524) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: اس کی صورت یہ ہے کہ جانور ایک تیسرے شخص کے پاس ہو اور دو شخص اس کا دعوی کریں، اور تیسرا شخص کہے کہ میں اصل مالک کو نہیں پہچانتا، علی رضی اللہ عنہ کا یہی قول ہے، اور شافعی کے نزدیک وہ جانور تیسرے کے پاس رہے گا، اور ابوحنیفہ کے نزدیک دونوں دعوے داروں کو آدھا آدھا بانٹ دیں گے، اسی طرح اگر دو شخص ایک چیز کا دعوی کریں، اور دونوں گواہ پیش کریں اور کوئی ترجیح کی وجہ نہ ہو تو اس چیز کو آدھا آدھا بانٹ دیں گے، (ابوداود، حاکم، بیہقی)۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2329  
´ایک چیز کے دو دعوے دار ہوں اور کسی کے پاس گواہ نہ ہوں تو اس کی حکم کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ذکر کیا کہ ایک جانور پر دو آدمیوں نے دعویٰ کیا، اور ان دونوں میں سے کسی کے پاس گواہ نہیں تھے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو قسم پر قرعہ اندازی کا حکم دیا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأحكام/حدیث: 2329]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ یہی روایت سنن ابی داؤد میں بھی ہے وہاں پر لکھتے ہیں کہ یہ حدیث سنداً ضعیف ہے لیکن دیگر بہت سے شواہد کی بنا پر صحیح ہے دیکھیے: (سنن أبي داؤد (اردو)
مطبوعہ دار السلام .حدیث 3616)

علاوہ ازیں مذکورہ روایت کو دیگر محققین نے بھی صحیح قرار دیا ہے لہذا مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باجود دیگر شواہد کی بنا پر قابل عمل اور قابل حجت ہے۔
تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعة الحديثة مسند الإمام أحمد: 13/ 535،   16/ 238، والإرواء: 8/ 275، وسنن ابن ماجة بتحقيق الدكتور بشار عواد. رقم: 2329)
۔

(2)
اصل قانون یہی ہے کہ مدعی گواہ پیش کرے ورنہ مدعا علیہ قسم کھائے۔

(3)
حدیث میں مذکورہ صورت میں دونوں فریق مدعی بھی ہیں اور مدعا علیہ بھی۔
ایسی صورت میں دونوں قسم کھانے کا حق رکھتے ہیں لہٰذا قرعہ اندازی سے فیصلہ کر لیا جائے کہ کون قسم کھائے۔

(4)
بعض معاملات میں قرعہ اندازی سے فیصلہ کیا جاسکتا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2329