سنن ابن ماجه
كتاب الأحكام -- کتاب: قضا کے احکام و مسائل
12. بَابُ : مَنْ سُرِقَ لَهُ شَيْءٌ فَوَجَدَهُ فِي يَدِ رَجُلٍ اشْتَرَاهُ
باب: کسی آدمی کے یہاں چوری ہو گئی اور چوری کا مال کسی نے خرید لیا تو اس کا مال کا حقدار کون ہے؟
حدیث نمبر: 2331
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عُبَيْدِ بْنِ زَيْدِ بْنِ عُقْبَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا ضَاعَ لِلرَّجُلِ مَتَاعٌ أَوْ سُرِقَ لَهُ مَتَاعٌ فَوَجَدَهُ فِي يَدِ رَجُلٍ يَبِيعُهُ فَهُوَ أَحَقُّ بِهِ وَيَرْجِعُ الْمُشْتَرِي عَلَى الْبَائِعِ بِالثَّمَنِ".
سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب آدمی کا کوئی سامان کھو جائے یا چوری ہو جائے، پھر وہ کسی آدمی کو اسے بیچتے ہوئے پائے تو وہ اس کا زیادہ حقدار ہے، اور جس نے خریدا وہ اس کے بیچنے والے سے قیمت واپس لے لے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجة، (تحفة الأشراف: 4629، ومصباح الزجاجة: 816)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/13، 18) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (حجاج بن أرطاہ مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے)

وضاحت: ۱؎: یعنی اصل مالک جس کا مال چوری ہو گیا تھا، وہ اس کا زیادہ حق دار ہے۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3531  
´جو شخص اپنا مال کسی اور کے پاس پائے تو کیا کرے؟`
سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اپنا مال کسی اور کے پاس ہو بہو پائے تو وہی اس کا زیادہ حقدار ہے اور خریدار اس شخص کا پیچھا کرے جس نے اس کے ہاتھ بیچا ہے ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الإجارة /حدیث: 3531]
فوائد ومسائل:
فائدہ۔
کوئی غصب شدہ چوری شدہ یا گم شدہ مال اگر کسی کے پاس ملے۔
تو وہ اصل مالک کا حق ہے۔
یعنی خریدار تو وہ مالک اصل مالک کو دے دے۔
اور اپنا نقصان یعنی اس مال کی قیمت اس سے وصول کرے۔
جس سے اس نے خریدا تھا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3531