سنن ابن ماجه
كتاب الأحكام -- کتاب: قضا کے احکام و مسائل
18. بَابُ : الرَّجُلاَنِ يَدَّعِيَانِ فِي خُصٍّ
باب: جھونپڑی کے دو دعوے دار ہوں تو فیصلہ کیسے ہو گا؟
حدیث نمبر: 2343
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ ، وَعَمَّارُ بْنُ خَالِدٍ الْوَاسِطِيُّ ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ ، عَنْ دَهْثَمِ بْنِ قُرَّانٍ ، عَنْ نِمْرَانَ بْنِ جَارِيَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّ قَوْمًا اخْتَصَمُوا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي خُصٍّ كَانَ بَيْنَهُمْ فَبَعَثَ حُذَيْفَةَ يَقْضِي بَيْنَهُمْ فَقَضَى لِلَّذِينَ يَلِيهِمُ الْقِمْطُ فَلَمَّا رَجَعَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَهُ فَقَالَ:" أَصَبْتَ وَأَحْسَنْتَ".
جاریہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کچھ لوگ ایک جھونپڑی کے متعلق جو ان کے بیچ میں تھی جھگڑا لے کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حذیفہ رضی اللہ عنہ کو ان کے درمیان فیصلہ کرنے کے لیے بھیجا، انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ جھونپڑی ان کی ہے جن سے رسی قریب ہے، پھر جب وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس واپس آئے، اور انہیں بتایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے ٹھیک اور اچھا فیصلہ کیا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجة، (تحفة الأشراف: 3181، ومصباح الزجاجة: 823) (ضعیف جدا)» ‏‏‏‏ (سند میں نمران بن جاریہ مجہول الحال، اور دھشم بن قران متروک راوی ہیں)

قال الشيخ الألباني: ضعيف جدا
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2343  
´جھونپڑی کے دو دعوے دار ہوں تو فیصلہ کیسے ہو گا؟`
جاریہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کچھ لوگ ایک جھونپڑی کے متعلق جو ان کے بیچ میں تھی جھگڑا لے کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حذیفہ رضی اللہ عنہ کو ان کے درمیان فیصلہ کرنے کے لیے بھیجا، انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ جھونپڑی ان کی ہے جن سے رسی قریب ہے، پھر جب وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس واپس آئے، اور انہیں بتایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے ٹھیک اور اچھا فیصلہ کیا۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الأحكام/حدیث: 2343]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
جناب زہیر شاویش ضعیف ابن ماجہ کے حاشہ میں لکھتے ہیں:
(خص)
سرکنڈے کی جھونپڑی کو کہتے ہیں۔
اس کا نرم حصہ اسی طرف ہوتا ہے جدھر دھاگے اور رسیاں وغیرہ ہوں۔
کھجور کے پتے اور چھلکا مالک کی طرف ہوتا ہے اور سخت اور کھردرا حصہ دوسری طرف ہوتا ہے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے (ملکیت کا دعوی کرکے)
زیادتی کی تھی کیونکہ اس نے اپنی شہتریاں وغیرہ کھر درے حصے کی طرف رکھی تھیں....
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2343