سنن ابن ماجه
كتاب الأحكام -- کتاب: قضا کے احکام و مسائل
26. بَابُ : مَنْ وَجَدَ مَتَاعَهُ بِعَيْنِهِ عِنْدَ رَجُلٍ قَدْ أَفْلَسَ
باب: ایک شخص کا دیوالیہ ہو گیا اور کسی نے اپنا مال اس کے پاس پا لیا تو اس کے حکم کا بیان۔
حدیث نمبر: 2360
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ الْحِزَامِيُّ ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدِّمَشْقِيُّ ، قَالَا: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ ، عَنْ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ ، عَنْ أَبِي الْمُعْتَمِرِ بْنِ عَمْرِو بْنِ رَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ خَلْدَةَ الزُّرَقِيِّ وَكَانَ قَاضِيًا بِالْمَدِينَةِ، قَالَ: جِئْنَا أَبَا هُرَيْرَةَ فِي صَاحِبٍ لَنَا قَدْ أَفْلَسَ، فَقَالَ: هَذَا الَّذِي قَضَى فِيهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَيُّمَا رَجُلٍ مَاتَ أَوْ أَفْلَسَ فَصَاحِبُ الْمَتَاعِ أَحَقُّ بِمَتَاعِهِ إِذَا وَجَدَهُ بِعَيْنِهِ".
ابن خلدہ زرقی (وہ مدینہ کے قاضی تھے) کہتے ہیں کہ ہم اپنے ایک ساتھی کے سلسلے میں جس کا دیوالیہ ہو گیا تھا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، تو انہوں نے کہا: ایسے ہی شخص کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ دیا تھا: جو شخص مر جائے یا جس کا دیوالیہ ہو جائے، تو سامان کا مالک ہی اپنے سامان کا زیادہ حقدار ہے، جب وہ اس کو بعینہ اس کے پاس پائے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن ابی داود/البیوع 76 (3523)، (تحفة الأشراف: 14269) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (سند میں ابو المعتمر بن عمرو بن رافع مجہول ہیں)

قال الشيخ الألباني: ضعيف
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2361  
´ایک شخص کا دیوالیہ ہو گیا اور کسی نے اپنا مال اس کے پاس پا لیا تو اس کے حکم کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص مر جائے، اور اس کے پاس کسی کا مال بعینہ موجود ہو، خواہ اس کی قیمت سے کچھ وصول کیا ہو یا نہیں، وہ ہر حال میں دوسرے قرض خواہوں کے مانند ہو گا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأحكام/حدیث: 2361]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اگر فوت ہونے والے نے کسی سے نقد رقم قرض لی ہو اور اسے استعمال کرنے سے پہلے فوت ہو جائے تو جس شخص نے یہ رقم قرض دی تھی وہ یہ دعوی نہیں کر سکتا کہ پوری کی پوری رقم مجھے ملنی چاہیے کیونکہ یہ وہی نوٹ ہیں جو اس نے مجھ سے لیے تھے بلکہ یہ قرض خواہ بھی دوسرے قرض خواہوں کی طرح ہی ہے۔
اگر اوروں کو پورا قرض ملے گا تو اسے بھی اس کا پورا قرض مل جائے گا۔
اور اگر اس کارقرض ترکے میں زیادہ ہونے کی وجہ سے دوسرے قرض خواہوں کی اصل قرض سے کم وصول ہو رہا ہے تو اسے بھی اسی نسبت سے کم ادائیگی کی جائے گی۔
اس معاملے میں نقد رقم کا حکم دوسرے سامان کا نہیں جو اگر بعینہ موجود ہو تو قرض خواہ اسے لے لیتا ہے جیسے حدیث: 2359 کا فائدہ: 3 (الف)
میں بیان کیا گیا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2361