صحيح البخاري
كِتَاب الِاعْتِكَافِ -- کتاب: اعتکاف کے مسائل کا بیان
15. بَابُ مَنْ لَمْ يَرَ عَلَيْهِ صَوْمًا إِذَا اعْتَكَفَ:
باب: اعتکاف کے لیے روزہ کا ضروری نہ ہونا۔
حدیث نمبر: 2042
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَخِيهِ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بِلَالٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّهُ قَالَ:" يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي نَذَرْتُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ أَنْ أَعْتَكِفَ لَيْلَةً فِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَوْفِ نَذْرَكَ فَاعْتَكَفَ لَيْلَةً".
ہم سے اسماعیل بن عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے اپنے بھائی (عبدالحمید) سے، ان سے سلیمان نے، ان سے عبیداللہ بن عمر نے، ان سے نافع نے، ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا، ان سے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہ انہوں نے پوچھا، یا رسول اللہ! میں نے جاہلیت میں نذر مانی تھی کہ ایک رات کا مسجد الحرام میں اعتکاف کروں گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر اپنی نذر پوری کر۔ چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ نے ایک رات بھر اعتکاف کیا۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1772  
´ایک دن یا ایک رات کے اعتکاف کا حکم۔`
عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے جاہلیت کے زمانہ میں ایک رات کے اعتکاف کی نذر مانی تھی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اعتکاف کرنے کا حکم دیا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1772]
اردو حاشہ:
فوائد  وم مسائل:

(1)
اعتکاف ایک دن یا ایک رات بھی ہو سکتا ہے۔

(2)
اگر کوئی شخص اسلام قبول کرنے سے پہلے کسی نیک کام کا ارادہ کرے تو اسلام قبول کرنے کے بعد وہ کام کر لینا چاہیے البتہ اگر کسی غیر شرعی کام کا ارادہ کیا ہو تو اسے پورا نہیں کرنا چاہیے۔

(3)
اللہ کے لئے نذر ماننا عبادت ہے لہٰذا ایسی نذر پوری کرنا ضروری ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1772   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1187  
´(قسموں اور نذروں کے متعلق احادیث)`
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! میں نے جاہلیت کے زمانہ میں نذر مانی تھی کہ میں مسجد الحرام میں ایک رات اعتکاف کروں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر اپنی نذر کو پورا کرو۔ (بخاری ومسلم) اور بخاری نے اپنی روایت میں اتنا اضافہ کیا ہے۔ پھر انہوں نے ایک رات اعتکاف کیا۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1187»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الاعتكاف، باب الاعتكاف ليلًا، حديث:2032، ومسلم، الأيمان، باب نذر الكافر وما يفعل فيه إذا أسلم، حديث:1656.»
تشریح:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کافر نے حالت کفر میں جو نذر مانی ہو‘ اسلام لانے کے بعد اسے پورا کرنا ضروری ہے بشرطیکہ غیر شرعی نہ ہو۔
امام بخاری‘ امام ابن جریر رحمہم اللہ اور شوافع کی ایک جماعت کی رائے یہی ہے مگر جمہور کے نزدیک کافر کی نذر منعقد ہی نہیں ہوتی تو پوری کرنے کا کیا سوال‘ اس لیے انھوں نے اس حدیث کو استحباب پر محمول کیا ہے۔
بہرحال حدیث کے ظاہر سے پہلی رائے کی تائید ہوتی ہے۔
واللّٰہ أعلم۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1187   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1539  
´نذر پوری کرنے کا بیان۔`
عمر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے جاہلیت میں نذر مانی تھی کہ ایک رات مسجد الحرام میں اعتکاف کروں گا، (تو اس کا حکم بتائیں؟) آپ نے فرمایا: اپنی نذر پوری کرو ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب النذور والأيمان/حدیث: 1539]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ نے ایک رات کے لیے مسجد حرام میں اعتکاف کیا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1539   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2474  
´اعتکاف کرنے والا مریض کی عیادت کر سکتا ہے؟`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے زمانہ جاہلیت میں اپنے اوپر کعبہ کے پاس ایک دن اور ایک رات کے اعتکاف کی نذر مانی تھی تو انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا تو آپ نے فرمایا: اعتکاف کرو اور روزہ رکھو۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2474]
فوائد ومسائل:
اس روایت میں دن کا ذکر اور روزہ بھی رکھو کا بیان صحیح نہیں ہے۔
کیونکہ یہ روایت صحیح بخاری میں ہے، اس میں دن کا اور روزہ رکھنے کے حکم کا ذکر نہیں ہے۔
(صحيح البخاري‘ الاعتكاف‘ حديث: 2033) بہرحال نیکی کے کام کی نذر خواہ جاہلیت کے دور میں مانی گئی ہو، پوری کرنی چاہیے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2474   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2042  
2042. حضرت عمر ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا: اللہ کے رسول ﷺ! میں نے زمانہ جاہلیت میں نذر مانی تھی کہ ایک رات مسجد حرام میں اعتکاف کروں گا۔ نبی کریم ﷺ نے انھیں فرمایا؛ اپنی نذر پوری کرلو۔ تب انھوں نے ایک رات اعتکاف کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2042]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اعتکاف کے لیے روزہ شرط نہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عمر ؓ کو ایک رات کا اعتکاف کرنے کی اجازت دی اور رات روزے کا محل نہیں، البتہ بعض روایات میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں حکم دیا تھا کہ اعتکاف کریں اور روزہ رکھیں لیکن یہ روایات قابل حجت نہیں ہیں کیونکہ ان میں عبداللہ بن بدیل نامی ایک راوی ضعیف ہے۔
(فتح الباري: 349/4)
اس روایت سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت عمر فاروق ؓ نے صرف ایک رات کا اعتکاف کیا۔
رات کا روزہ شریعت میں منع ہے۔
(2)
بعض حضرات کا خیال ہے کہ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب رات کا روزہ منع نہیں تھا۔
لیکن یہ موقف اس لیے غلط ہے کہ حضرت عمر ؓ نے غزوۂ حنین سے لوٹتے وقت آپ سے عرض کی تھی اور اس وقت رات کے روزے کی ممانعت آ چکی تھی۔
(فتح الباري: 348/4)
البتہ حضرت عائشہ ؓ سے ایک روایت ہے کہ روزے کے بغیر اعتکاف نہیں ہے۔
(سنن أبي داود، الصیام، حدیث: 2473) (3)
ہمارے نزدیک راجح موقف یہ ہے کہ روزے کے بغیر اعتکاف جائز ہے لیکن روزے کے ساتھ اعتکاف کرنا افضل ہے۔
یاد رہے! اس کا یہ مطلب نہیں کہ کوئی شخص رمضان کا روزہ تو استطاعت کے باوجود نہ رکھے اور اعتکاف کر لے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص رمضان کے علاوہ اعتکاف کرتا ہے یا رمضان میں روزے کی ہمت نہیں رکھتا تو اس کے لیے جائز ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2042