سنن ابن ماجه
كتاب الرهون -- کتاب: رہن کے احکام و مسائل
15. بَابُ : تَلْقِيحِ النَّخْلِ
باب: کھجور کے درخت میں پیوند کاری کا بیان۔
حدیث نمبر: 2470
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى ، عَنْ إِسْرَائِيلَ ، عَنْ سِمَاكٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ مُوسَى بْنَ طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: مَرَرْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي نَخْلٍ فَرَأَى قَوْمًا يُلَقِّحُونَ النَّخْلَ، فَقَالَ: مَا يَصْنَعُ هَؤُلَاءِ؟، قَالُوا: يَأْخُذُونَ مِنَ الذَّكَرِ فَيَجْعَلُونَهُ فِي الْأُنْثَى، قَالَ: مَا أَظُنُّ ذَلِكَ يُغْنِي شَيْئًا فَبَلَغَهُمْ، فَتَرَكُوهُ فَنَزَلُوا عَنْهَا فَبَلَغَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" إِنَّمَا هُوَ الظَّنُّ، إِنْ كَانَ يُغْنِي شَيْئًا فَاصْنَعُوهُ فَإِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ وَإِنَّ الظَّنَّ يُخْطِئُ وَيُصِيبُ وَلَكِنْ مَا قُلْتُ لَكُمْ: قَالَ اللَّهُ: فَلَنْ أَكْذِبَ عَلَى اللَّهِ".
طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھجور کے باغ میں گزرا، تو آپ نے دیکھا کہ کچھ لوگ نر کھجور کا گابھا لے کر مادہ میں ڈالتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: یہ لوگ کیا کر رہے ہیں؟ لوگوں نے عرض کیا: نر کا گابھا لے کر مادہ میں ڈالتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نہیں سمجھتا ہوں کہ اس سے کوئی فائدہ ہو گا، یہ خبر جب ان صحابہ کو پہنچی تو انہوں نے ایسا کرنا چھوڑ دیا، لیکن اس سے درختوں میں پھل کم آئے، پھر یہ بات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ میرا گمان تھا، اگر اس میں فائدہ ہے تو اسے کرو، میں تو تمہی جیسا ایک آدمی ہوں گمان کبھی غلط ہوتا ہے اور کبھی صحیح، لیکن جو میں تم سے کہوں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے (تو وہ غلط نہیں ہو سکتا ہے) کیونکہ میں اللہ تعالیٰ پر ہرگز جھوٹ نہیں بولوں گا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/الفضائل 38 (2361)، (تحفة الأشراف: 5012)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/162) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2470  
´کھجور کے درخت میں پیوند کاری کا بیان۔`
طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھجور کے باغ میں گزرا، تو آپ نے دیکھا کہ کچھ لوگ نر کھجور کا گابھا لے کر مادہ میں ڈالتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: یہ لوگ کیا کر رہے ہیں؟ لوگوں نے عرض کیا: نر کا گابھا لے کر مادہ میں ڈالتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نہیں سمجھتا ہوں کہ اس سے کوئی فائدہ ہو گا، یہ خبر جب ان صحابہ کو پہنچی تو انہوں نے ایسا کرنا چھوڑ دیا، لیکن اس سے درختوں میں پھل کم آئے، پھر یہ بات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ف۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الرهون/حدیث: 2470]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
دنیوی معاملات میں ہروہ کام جائز ہے جس سےمنع نہ کیا گیا ہو لیکن عبادت میں صرف وہی کام جائز ہے جو رسول اللہ ﷺ سےثابت ہے۔
خود ساختہ رسوم اوراعمال کوثواب کا باعث قراردینا درست نہیں بلکہ یہ اعمال بدعت ہیں جن کا ارتکاب گناہ ہے۔
رسول اللہ ﷺ ایک انسان تھے اس لیے دنیا کے معاملات میں رسول اللہ ﷺنے اپنی رائے کووہ اہمیت نہیں دی جو ایک پیشے سے متعلق ماہر آدمی کی رائے کو دی۔

(2)
نبی کےلیے ضروری نہیں کہ وہ ہر پیشے اور ہر فن کی باریکیوں سے واقف ہو البتہ جن معاملات کا تعلق شریعت کی تبلیغ وتوضیح سے ہوتاہے ان میں نبی کواللہ کی طرف سے مکمل رہنمائی ملتی ہے۔

(3)
سچا نبی جھوٹ نہیں بول سکتا۔
اور جس شخص سے جھوٹ کا ارتکاب ثابت ہو جائے وہ نبوت کے دعوے میں سچا نہیں ہوسکتا۔
مرزا غلام احمد قادیانی کے جھوٹا ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اس نے دنیوی معاملات میں صریح جھوٹ بولا اورعوام کو دھوکا دیا مثلاً اس نے اپنی کتاب براہین احمدیہ کےبارے میں اعلان کیا کہ وہ پچاس اجزاء پر مشتمل ہوگی۔
لیکن پہلی جلد شائع نہ ہو سکی توکہہ دیا کہ پانچ حصوں کی اشاعت سے پچاس حصوں کا وعدہ پورا ہو گیا ہے اس کے علاوہ اس نے متعدد جھوٹ بولے اورجھوٹے دعوے کیے جس کی تفصیل شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب کذبات مرزا وغیرہ میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2470