سنن ابن ماجه
كتاب الشفعة -- کتاب: شفعہ کے احکام و مسائل
4. بَابُ : طَلَبِ الشُّفْعَةِ
باب: شفعہ کا مطالبہ۔
حدیث نمبر: 2501
حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَارِثِ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْبَيْلَمَانِيِّ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا شُفْعَةَ لِشَرِيكٍ عَلَى شَرِيكٍ إِذَا سَبَقَهُ بِالشِّرَاءِ وَلَا لِصَغِيرٍ وَلَا لِغَائِبٍ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شریک کو شریک پر اس وقت شفعہ نہیں رہتا ہے، جب وہ خریداری میں اس سے سبقت کر جائے، اسی طرح نہ کم سن (نابالغ) کے لیے شفعہ ہے، اور نہ غائب کے لیے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 7293، ومصباح الزجاجة: 887) (ضعیف جدا)» ‏‏‏‏ (سند میں محمد بن الحارث ضعیف راوی ہیں، اور محمد بن عبد الرحمن البیلمانی متہم با لکذب راوی ہیں، نیز ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: 4804)

وضاحت: ۱؎: مثلاً کسی جائیداد میں زید، عمر اور بکر شریک ہیں،بکر نے اپنا حصہ زید کے ہاتھ بیچ دیا، تو عمر کو زید پر شفعہ کے دعویٰ کا حق حاصل نہ ہو گا۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف جدا
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2501  
´شفعہ کا مطالبہ۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شریک کو شریک پر اس وقت شفعہ نہیں رہتا ہے، جب وہ خریداری میں اس سے سبقت کر جائے، اسی طرح نہ کم سن (نابالغ) کے لیے شفعہ ہے، اور نہ غائب کے لیے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الشفعة/حدیث: 2501]
اردو حاشہ:
فائدہ:
شریک پر شریک کےشفعے کا دعوی کرنے کا مطلب یہ ہے کہ جب کسی چیز میں تین افراد شریک ہوں اوران میں سے ایک آدمی دوسرے کا حصہ خرید لے تو تیسرے کوشفعے کا دعوی کرنے کا حق حاصل نہیں لیکن یہ روایت سخت ضعیف ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2501   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 764  
´شفعہ کا بیان`
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شفعہ رسی کھولنے کی طرح ہے۔ اسے ابن ماجہ اور بزار نے روایت کیا ہے اور بزار نے اتنا اضافہ بھی نقل کیا ہے کہ غیرحاضر و غائب کے لئے شفعہ کا کوئی حق نہیں۔ اس کی سند ضعیف ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 764»
تخریج:
«أخرجه ابن ماجه، الشفعة، باب طلب الشفعة، حديث:2500، والزار: لم أجده، * محمد بن الحارث متروك كما قال البيهقي وغيره، وشيخه ضعيف، والسند ضعفه البوصيري.»
تشریح:
اس حدیث میں شفعہ کو اونٹ کے بند کھولنے سے تشبیہ دی گئی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح اونٹ کا زانو بند کھول دیا جائے تو وہ فوراً بھاگ نکلتا ہے‘ اسی طرح جس وقت کوئی چیز فروخت ہو یا شفعہ کرنے والے کو اس چیز کے فروخت کیے جانے کا علم ہو‘ اسی وقت بلاتاخیر شفعہ کر دے‘ ورنہ تاخیر کی صورت میں اس سے حق شفعہ جاتا رہے گا اور اس کا شفعہ قابل قبول نہیں ہوگا۔
یہ رائے احناف کی ہے۔
محدثین کے نزدیک تاخیر سے حق شفعہ باطل نہیں ہوتا کیونکہ شفعے کی احادیث مطلق ہیں اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی یہ روایت قابل استدلال نہیں ہے‘ نیز جب شفعہ کرنے والا کم سن ہو یا وہ اس وقت وہاں موجود نہ ہو تو بھی انھیں شفعہ کا استحقاق رہتا ہے جیسا کہ اوپر حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ اگر ہمسایہ اس موقع پر موجود نہ ہو تو اس کا انتظار کیا جائے۔
ظاہر ہے اگر اس کا حق شفعہ باطل ہوتا تو پھر اس کا انتظار کرنے کے کیا معنی؟ واللّٰہ أعلم۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 764