سنن ابن ماجه
كتاب العتق -- کتاب: غلام کی آ زادی کے احکام و مسائل
6. بَابُ : مَنْ أَعْتَقَ عَبْدًا وَاشْتَرَطَ خِدْمَتَهُ
باب: غلام کو آزاد کرتے ہوئے خدمت کی شرط لگانا۔
حدیث نمبر: 2526
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاوِيَةَ الْجُمَحِيُّ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُمْهَانَ ، عَنْ سَفِينَةَ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، قَالَ:" أَعْتَقَتْنِي أُمُّ سَلَمَةَ وَاشْتَرَطَتْ عَلَيَّ أَنْ أَخْدُمَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا عَاشَ".
‏‏‏‏ -

قال الشيخ الألباني: حسن
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2526  
´غلام کو آزاد کرتے ہوئے خدمت کی شرط لگانا۔`
‏‏‏‏ - [سنن ابن ماجه/كتاب العتق/حدیث: 2526]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
بظاہر خدمت کی شرط لگانا آزاد کرنے کے منافی ہے کیونکہ کرنے کا مطلب یہ ہےکہ اس پر آقا کی کوئی پابندی نہیں رہی لیکن اس واقعہ میں شرط ایسی ہے جو حضرت سفینہ کے لیے باعث شرف ہے۔

(2)
آزاد کرتے وقت کسی نیک کام کی شرط لگانا آزاد کرنے کے منافی نہیں ہے بلکہ یہ آزاد ہونے والے کے لیے نیکی کا موقع مہیا کرنے کے مترادف ہے۔

(3)
آزاد کرنے والا اپنی خدمت کی شرط نہیں لگا سکتا البتہ کسی نیک شخص یا بڑے عالم کی خدمت کی شرط لگانا جائز ہے۔

(4)
ممکن ہے یہاں شرط سے مراد یہ ہو ان سے وعدہ لے لیا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2526