سنن ابن ماجه
كتاب الحدود -- کتاب: حدود کے احکام و مسائل
2. بَابُ : الْمُرْتَدِّ عَنْ دِينِهِ
باب: دین اسلام سے مرتد ہو جانے والے کا حکم۔
حدیث نمبر: 2536
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ بَهْزِ بْنِ حَكِيمٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا يَقْبَلُ اللَّهُ مِنْ مُشْرِكٍ أَشْرَكَ بَعْدَ مَا أَسْلَمَ عَمَلًا حَتَّى يُفَارِقَ الْمُشْرِكِينَ إِلَى الْمُسْلِمِينَ".
معاویہ بن حیدۃ قشیری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کسی ایسے مشرک کا کوئی عمل قبول نہیں کرے گا جو اسلام لانے کے بعد شرک کرے، الا یہ کہ وہ پھر مشرکین کو چھوڑ کر مسلمانوں سے مل جائے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن النسائی/الزکاة 1 (2438)، 73 (2569)، (تحفة الأشراف: 11388)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/5) (حسن)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: یعنی دار الکفر سے دار الاسلام میں آ جائے، مراد وہ دار الکفر ہے جہاں مسلمان اسلام کے ارکان اور عبادات بجا نہ لا سکیں، ایسی جگہ سے ہجرت کرنا فرض ہے اور بعضوں نے کہا: مسلمانوں کی جماعت میں شریک ہونے کا مقصدیہ ہے کہ کافروں کی عادات و اخلاق چھوڑ دے۔

قال الشيخ الألباني: حسن
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2536  
´دین اسلام سے مرتد ہو جانے والے کا حکم۔`
معاویہ بن حیدۃ قشیری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کسی ایسے مشرک کا کوئی عمل قبول نہیں کرے گا جو اسلام لانے کے بعد شرک کرے، الا یہ کہ وہ پھر مشرکین کو چھوڑ کر مسلمانوں سے مل جائے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الحدود/حدیث: 2536]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
دین تبدیل کرنے سے مراد اسلام چھوڑ کر دوسرامذہب اختیار کرنا ہے۔
کسی یہودی کا عیسائی ہوجانا یا مجوسی کا یہودی ہوجانا اس میں شامل نہیں۔

(2)
مرتد کے لیے توبہ کی گنجائش ہے۔
اگر وہ توبہ کرکےکافروں سے تعلق ختم کرلے اس کی توبہ قبول ہے اس صورت میں اسے سزائے موت نہیں دی جائے گی۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2536