سنن ابن ماجه
كتاب الحدود -- کتاب: حدود کے احکام و مسائل
10. بَابُ : رَجْمِ الْيَهُودِيِّ وَالْيَهُودِيَّةِ
باب: یہودی مرد اور عورت کے رجم کا بیان۔
حدیث نمبر: 2558
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُرَّةَ ، عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ ، قَالَ: مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَهُودِيٍّ مُحَمَّمٍ مَجْلُودٍ، فَدَعَاهُمْ فَقَالَ:" هَكَذَا تَجِدُونَ فِي كِتَابِكُمْ حَدَّ الزَّانِي"، قَالُوا: نَعَمْ، فَدَعَا رَجُلًا مِنْ عُلَمَائِهِمْ، فَقَالَ:" أَنْشُدُكَ بِاللَّهِ الَّذِي أَنْزَلَ التَّوْرَاةَ عَلَى مُوسَى أَهَكَذَا تَجِدُونَ حَدَّ الزَّانِي؟" قَالَ: لَا، وَلَوْلَا أَنَّكَ نَشَدْتَنِي لَمْ أُخْبِرْكَ، نَجِدُ حَدَّ الزَّانِي فِي كِتَابِنَا الرَّجْمَ، وَلَكِنَّهُ كَثُرَ فِي أَشْرَافِنَا الرَّجْمُ، فَكُنَّا إِذَا أَخَذْنَا الشَّرِيفَ تَرَكْنَاهُ، وَكُنَّا إِذَا أَخَذْنَا الضَّعِيفَ أَقَمْنَا عَلَيْهِ الْحَدَّ، فَقُلْنَا: تَعَالَوْا فَلْنَجْتَمِعْ عَلَى شَيْءٍ نُقِيمُهُ عَلَى الشَّرِيفِ وَالْوَضِيعِ، فَاجْتَمَعْنَا عَلَى التَّحْمِيمِ وَالْجَلْدِ مَكَانَ الرَّجْمِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اللَّهُمَّ إِنِّي أَوَّلُ مَنْ أَحْيَا أَمْرَكَ إِذْ أَمَاتُوهُ" وَأَمَرَ بِهِ فَرُجِمَ.
براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایک یہودی کے پاس سے ہوا جس کا منہ کالا کیا گیا تھا اور جس کو کوڑے لگائے گئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان یہودیوں کو بلایا اور پوچھا: کیا تم لوگ اپنی کتاب توریت میں زانی کی یہی حد پاتے ہو؟ لوگوں نے عرض کیا: ہاں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے عالموں میں سے ایک شخص کو بلایا، اور اس سے پوچھا: میں تمہیں اس اللہ کا واسطہ دے کر کہتا ہوں جس نے موسیٰ پر توراۃ نازل فرمائی: کیا تم اپنی کتاب میں زانی کی حد یہی پاتے ہو؟ اس نے جواب دیا: نہیں، اور اگر آپ نے مجھے اللہ کی قسم نہ دی ہوتی تو میں آپ کو کبھی نہ بتاتا، ہماری کتاب میں زانی کی حد رجم ہے، لیکن ہمارے معزز لوگوں میں کثرت سے رجم کے واقعات پیش آئے، تو جب ہم کسی معزز آدمی کو زنا کے جرم میں پکڑتے تو اسے چھوڑ دیتے اور اگر پکڑا جانے والا معمولی آدمی ہوتا تو ہم اس پر حد جاری کرتے، پھر ہم نے لوگوں سے کہا کہ آؤ ایسی حد پر اتفاق کریں کہ جو معزز اور معمولی دونوں قسم کے آدمیوں پر ہم یکساں طور پر قائم کر سکیں، چنانچہ ہم نے رجم کی جگہ منہ کالا کرنے اور کوڑے مارنے کی سزا پر اتفاق کر لیا، یہ سن کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «اللهم إني أول من أحيا أمرك إذ أماتوه» یعنی اے اللہ! میں پہلا وہ شخص ہوں جس نے تیرے اس حکم کو زندہ کیا ہے جسے ان لوگوں نے مردہ کر دیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا اور وہ یہودی رجم کر دیا گیا۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الحدود 6 (1700)، سنن ابی داود/الحدود 26 (4447)، (تحفة الأشراف: 1771)، وقد أخرجہ: مسند احمد (286، 290، 300) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2558  
´یہودی مرد اور عورت کے رجم کا بیان۔`
براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایک یہودی کے پاس سے ہوا جس کا منہ کالا کیا گیا تھا اور جس کو کوڑے لگائے گئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان یہودیوں کو بلایا اور پوچھا: کیا تم لوگ اپنی کتاب توریت میں زانی کی یہی حد پاتے ہو؟ لوگوں نے عرض کیا: ہاں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے عالموں میں سے ایک شخص کو بلایا، اور اس سے پوچھا: میں تمہیں اس اللہ کا واسطہ دے کر کہتا ہوں جس نے موسیٰ پر توراۃ نازل فرمائی: کیا تم اپنی کتاب میں زانی کی حد یہی پاتے ہو؟ اس نے جواب دیا: نہیں، اور اگر آپ نے مجھے اللہ ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الحدود/حدیث: 2558]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اللہ کے قوانین کوتبدیل کرکے اپنے بنائے ہوئے قوانین کو اللہ کے قوانین کہنا یہودیوں کی صفت ہے۔
مسلمانوں کو اس سے پرہیز کرنا چاہیے۔

(2)
جو رسم و رواج شریعت کے خلاف ہوں انھیں شریعت کے مطابق ڈھالنا چاہیے۔

(3)
بائبل کے موجوہ نسخوں میں بھی زنا کے مجرم کےلیے سزائے موت کا ذکرموجود ہے۔
حضرت موسیٰ کی طرف منسوب کتاب استثنا میں اس طرح درج ہے۔
اگر کوئی مرد کسی شوہر والی عورت سے زنا کرتے پکڑا جائے تو دونوں مار ڈالے جائیں یعنی وہ مرد بھی جس نے عورت سے صحبت کی اور وہ عورت بھی۔
یوں تو اسرئیل میں سے ایسی برائی کو دفع کرنا اگر کوئی کنواری لڑکی کسی شخص سے منسوب ہو گئی ہو دوسرا آدمی اسے شہر میں پا کر اس سے صحبت کرے تو تم ان دونوں کو اس شہر کے پھاٹک تک نکال لانا اور اسے سنگسار کر دینا کہ وہ مر جائیں۔ (استثناء باب: 22فقرہ22تا24)

(4)
قانون کا نفاذ امیرغریب سب پر یکساں ہونا چاہیے۔

(5)
صیحح مسئلہ چھپا لینا یہودیوں کی عادت ہے۔

(6)
غیرمسلم سے بھی غیراللہ کی قسم لینا جائز نہیں بلکہ اس سےاللہ کی صفت کا ذکر کر کے قسم لی جائےجس کا وہ بھی قائل ہو۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2558   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4447  
´دو یہودیوں کے رجم کا بیان۔`
براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے لوگ ایک یہودی کو لے کر گزرے جس کو ہاتھ منہ کالا کر کے گھمایا جا رہا تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اللہ کا واسطہ دے کر پوچھا کہ ان کی کتاب میں زانی کی حد کیا ہے؟ ان لوگوں نے آپ کو اپنے میں سے ایک شخص کی طرف اشارہ کر کے پوچھنے کے لیے کہا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے اللہ کا واسطہ دے کر پوچھا کہ تمہاری کتاب میں زانی کی حد کیا ہے؟ تو اس نے کہا: رجم ہے، لیکن زنا کا جرم ہمارے معزز لوگوں میں عام ہو گیا، تو ہم نے یہ پسند نہیں کیا کہ معزز اور شریف آدمی کو چھوڑ دیا جائ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الحدود /حدیث: 4447]
فوائد ومسائل:
کسی مردہ سنت کو زندہ کر نا اوراس پرعمل کرنا کرانا بہٹ بڑی عزیمت کا کام ہے اور اس کی فضیلت میں وارد ہے کہ بعد میں اس پر عمل کرنے والے سب لوگوں کے ثواب کے برابر اس پہلے آدمی کو ثواب ملتا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4447