سنن ابن ماجه
كتاب الديات -- کتاب: دیت (خون بہا) کے احکام و مسائل
14. بَابُ : الْقَاتِلُ لاَ يَرِثُ
باب: قاتل مقتول کی وراثت کا حقدار نہ ہو گا۔
حدیث نمبر: 2646
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ الْكِنْدِيُّ ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، أَنَّ أَبَا قَتَادَةَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي مُدْلِجٍ قَتَلَ ابْنَهُ، فَأَخَذَ مِنْهُ عُمَرُ مِائَةً مِنَ الْإِبِلِ ثَلَاثِينَ حِقَّةً وَثَلَاثِينَ جَذَعَةً وَأَرْبَعِينَ خَلِفَةً، فَقَالَ ابْنُ أَخِي الْمَقْتُولِ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" لَيْسَ لِقَاتِلٍ مِيرَاثٌ".
عمرو بن شعیب کہتے ہیں کہ قبیلہ بنی مدلج کے ابوقتادہ نامی شخص نے اپنے بیٹے کو مار ڈالا جس پر عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے دیت کے سو اونٹ لیے: تیس حقے، تیس جذعے، اور چالیس حاملہ اونٹنیاں، پھر فرمایا: مقتول کا بھائی کہاں ہے؟ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: قاتل کے لیے کوئی میراث نہیں ۱؎۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 15654، ومصباح الزجاجة: 934)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/49)، موطا امام مالک/العقول 17 (10) (صحیح) (شواہد کی وجہ سے یہ صحیح ہے)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: «حقہ»: ایسی اونٹنی جو تین سال پورے کر کے چوتھے میں لگ جائے۔ «جذعہ»: ایسی اونٹنی جو چار سال پورے کر کے پانچویں میں لگ جائے۔
مقتول کا بھائی کہاں ہے؟ یعنی مقتول کے بھائی کو سارا مال دلا دیا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2646  
´قاتل مقتول کی وراثت کا حقدار نہ ہو گا۔`
عمرو بن شعیب کہتے ہیں کہ قبیلہ بنی مدلج کے ابوقتادہ نامی شخص نے اپنے بیٹے کو مار ڈالا جس پر عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے دیت کے سو اونٹ لیے: تیس حقے، تیس جذعے، اور چالیس حاملہ اونٹنیاں، پھر فرمایا: مقتول کا بھائی کہاں ہے؟ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: قاتل کے لیے کوئی میراث نہیں ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الديات/حدیث: 2646]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
قاتل کو وراثت کے حصے سے محروم کرنے میں یہ حکمت ہے کہ بہت دفعہ قتل کی وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ قاتل مقتول کی وراثت حاصل کرنا چاہتا ہے۔
اس قانون کی وجہ سے قاتل یہ سوچنے پر مجبور ہوگا کہ قتل کی صورت میں ترکہ تو ملے گا نہیں، اس کے علاوہ سزائے موت کا خطرہ موجود ہے۔
اگر سزائےموت نہ بھی ملی تو دیت کی ادائیگی لازم ہوگی۔
اس طرح مزید دولت ملنے کے بجائے پہلی دولت بھی ہاتھ سے جائے گی۔
یہ سوچ کروہ قتل سے پرہیز کرےگا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2646