سنن ابن ماجه
كتاب الديات -- کتاب: دیت (خون بہا) کے احکام و مسائل
35. بَابُ : الْعَفْوِ فِي الْقِصَاصِ
باب: قصاص معاف کر دینے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2692
حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ ، أَنْبَأَنَا حَبَّانُ بْنُ هِلَالٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بَكْرٍ الْمُزَنِيُّ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي مَيْمُونَةَ ، قَالَ: لَا أَعْلَمُهُ إِلَّا عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ:" مَا رُفِعَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْءٌ فِيهِ الْقِصَاصُ إِلَّا أَمَرَ فِيهِ بِالْعَفْوِ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قصاص کا کوئی مقدمہ آتا تو آپ اس کو معاف کر دینے کا حکم دیتے (یعنی سفارش کرتے)۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الدیات 3 (4497)، سنن النسائی/القسامة 23 (4787، 4788)، (تحفة الأ شراف: 1095)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/213، 252) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2692  
´قصاص معاف کر دینے کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قصاص کا کوئی مقدمہ آتا تو آپ اس کو معاف کر دینے کا حکم دیتے (یعنی سفارش کرتے)۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الديات/حدیث: 2692]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
قصاص لینا جائز ہے لیکن معاف کردینا افضل ہے۔

(2)
حاکم فریقین کو معافی یا صلح کا مشورہ دے سکتا ہے لیکن متعلقہ فریق کے لیے ضروری نہیں کہ اس مشورے کو تسلیم کرے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2692   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4497  
´امام (حاکم) خون معاف کر دینے کا حکم دے تو کیسا ہے؟`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کوئی ایسا مقدمہ لایا جاتا جس میں قصاص لازم ہوتا تو میں نے آپ کو یہی دیکھا کہ (پہلے) آپ اس میں معاف کر دینے کا حکم دیتے۔ [سنن ابي داود/كتاب الديات /حدیث: 4497]
فوائد ومسائل:
قاضی اورحاکم صاحب کا معاملہ کو معاف کرنےکی ترغیب دے سکتے ہیں ازخود معاف کرنے کا کوئی حق نہیں رکھتے۔
اگر معاف کریں تو بہت بڑا ظلم ہے، جیسے کہ ہماری حکومتوں کا معمول ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4497