سنن ابن ماجه
كتاب الوصايا -- کتاب: وصیت کے احکام و مسائل
1. بَابُ : هَلْ أَوْصَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
باب: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت کی تھی؟
حدیث نمبر: 2696
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ مَالِكِ بْنِ مِغْوَلٍ ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ مُصَرِّفٍ ، قَالَ: قُلْتُ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى : أَوْصَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشَيْءٍ؟ قَالَ: لَا، قُلْتُ: فَكَيْفَ أَمَرَ الْمُسْلِمِينَ بِالْوَصِيَّةِ؟، قَالَ:" أَوْصَى بِكِتَابِ اللَّهِ".
طلحہ بن مصرف کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی چیز کی وصیت کی ہے؟ انہوں نے جواب دیا: نہیں، میں نے کہا: پھر کیوں کر مسلمانوں کو وصیت کا حکم دیا؟ تو انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی کتاب (قرآن) پر چلنے کی وصیت فرمائی ۱؎۔ مالک کہتے ہیں: طلحہ بن مصرف کا بیان ہے کہ ہزیل بن شرحبیل نے کہا: بھلا ابوبکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصی پر حکومت کر سکتے تھے؟ ابوبکر رضی اللہ عنہ کا تو یہ حال تھا کہ اگر وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم پاتے تو تابع دار اونٹنی کی طرح اپنی ناک میں (اطاعت کی) نکیل ڈال لیتے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الوصایا 1 (2740)، المغازي 83 (4460)، فضائل القران 18 (5022)، صحیح مسلم/الوصایا 5 (1634)، سنن الترمذی/الوصایا 4 (2119)، سنن النسائی/الوصایا 2 (3650)، (تحفة الأ شراف: 5170، 19507)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/354، 355، 381)، سنن الدارمی/الوصایا 3 (3224) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: یعنی اس حکم پر سب سے پہلے ابوبکر رضی اللہ عنہ چلتے اس کے بعد اور لوگ، کیونکہ ابوبکر رضی اللہ عنہ سب صحابہ سے زیادہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مطیع تھے، ان کے بارے میں گمان بھی نہیں ہو سکتا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی اور کو خلیفہ بنانے کے لئے فرمایا ہو اور خود خلافت لے لیں، بلکہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کو تو خلافت کی خواہش ہی نہ تھی، جب ثقیفہ بنو ساعدہ میں صلاح و مشورہ ہوا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یہ رائے دی کہ دو آدمیوں میں سے ایک کے ہاتھ بیعت کر لو، عمر بن خطاب کے ہاتھ پر یا ابو عبیدہ بن جراح کے ہاتھ پر، اور اپنا نام ہی نہ لیا، لیکن عمر رضی اللہ عنہ نے زبردستی ان سے بیعت کی، اس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی بیعت کر لی، آسمان گر پڑے اور زمین پھٹ جائے ان بے ایمانوں پر جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جانثار جانباز صحابہ کے خلاف الزام تراشی کرتے ہیں، اور معاذ اللہ یہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صراحۃ علی رضی اللہ عنہ کو اپنے بعد خلیفہ بنایا تھا اور صحابہ اس کو جانتے تھے، لیکن عمداً انہوں نے علی رضی اللہ عنہ کا حق دبایا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنایا: «سبحانك هذا بهتان عظيم» (سورة النور: 16) اگر صراحت تو کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذرا بھی اشارہ ہوتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد علی رضی اللہ عنہ خلیفہ ہیں تو تمام صحابہ جان و دل سے اس حکم کی اطاعت کرتے، اور علی رضی اللہ عنہ کو اسی وقت خلیفہ بناتے بلکہ خلافت کے لئے مشورہ ہی نہ کرتے، کیونکہ جو امر منصوص ہو اس میں صلاح و مشورہ کی کیا حاجت ہے، اگر بالفرض ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس حکم کے خلاف بھی کیا ہوتا تو انصار جن کی جماعت بہت تھی وہ کیونکر ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت قبول کر لیتے بلکہ حدیث پر چلنے کے لئے ان کو مجبور کر دیتے، وہ تو حدیث کے ایسے ماننے والے تھے کہ جب ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث سنائی: «الأ ئمۃ من قریش» امام قریش میں سے ہوں گے تو انہوں نے اپنی امامت کا دعوی چھوڑ دیا، پھر وہ دوسرے کی امامت حدیث کے خلاف کیسے مانتے، اور سب سے زیادہ تعجب یہ ہے کہ بنی ہاشم اور خود علی رضی اللہ عنہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کیسے تسلیم کرتے اور ان سے بیعت کیوں کرتے، برا ہو ان کا جو علی رضی اللہ عنہ کو ایسا بزدل مانتے ہیں کہ اپنا واجبی حق بھی نہ لے سکے، معاذ اللہ یہ سب دروغ بے فروغ ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح ق دون قول الهزيل بن شرحبيل أبو بكر الخ
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2696  
´کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت کی تھی؟`
طلحہ بن مصرف کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی چیز کی وصیت کی ہے؟ انہوں نے جواب دیا: نہیں، میں نے کہا: پھر کیوں کر مسلمانوں کو وصیت کا حکم دیا؟ تو انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی کتاب (قرآن) پر چلنے کی وصیت فرمائی ۱؎۔ مالک کہتے ہیں: طلحہ بن مصرف کا بیان ہے کہ ہزیل بن شرحبیل نے کہا: بھلا ابوبکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصی پر حکومت کر سکتے تھے؟ ابوبکر رضی اللہ عنہ کا تو یہ حال تھا کہ اگر وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم پاتے تو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الوصايا/حدیث: 2696]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:

(1)
سائل کا سوال خلافت کی وصیت کے بارے میں تھا۔
حضرت ابن ابی اوفی رضی اللہ عنہ نے واضح کردیا کہ رسو ل اللہ نے اس قسم کی کوئی وصیت نہیں فرمائی۔

(2)
سائل کا دوسرا سوال ایک اشکال کا اظہار ہے کہ رسول اللہﷺ نے عام مسلمانوں کو وصیت کا حکم دیا ہے تو خود بھی وصیت کی ہوگی، خصوصاً خلافت جیسے اہم معاملے میں ضرور فرمایا ہوگا کہ میرے بعد فلاں خلیفہ ہوگا تو جواب میں فرمایا گیا کہ رسول اللہﷺ نے پورے قرآن پر عمل کرنے کی وصیت فرمائی تھی۔
جس میں یہ حکم بھی ہے:
﴿وَاُولِی الْأَمْرِ مِنْکُمْ﴾  (النساء4؍59)
  تم (مسلمانوں)
میں سے جوصاحب امر ہوں ان کا حکم مانو۔

(2)
حضرت ابوبکر ؓ کی سیرت مبارکہ کا سب سے اہم پہلو اتباع رسول اللہﷺ ہے، اس لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ نبئ کریمﷺ حضرت علی ؓ کو خلیفہ متعین فرمائیں اور حضرت ابوبکر﷜ خود یہ منصب سنبھال لیں، بلکہ وہ تو رسول اللہﷺ کے مقرر کئے ہوئے خلیفے کے اطاعت میں آخری حد تک جانے کو تیار ہوجاتے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2696   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2119  
´نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے (کوئی مالی) وصیت نہیں کی۔`
طلحہ بن مصرف کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن ابی اوفی رضی الله عنہ سے پوچھا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت کی تھی؟ انہوں نے کہا: نہیں ۱؎ میں نے پوچھا: پھر وصیت کیسے لکھی گئی اور آپ نے لوگوں کو کس چیز کا حکم دیا؟ ابن ابی اوفی نے کہا: آپ نے کتاب اللہ پر عمل پیرا ہونے کی وصیت کی۔ [سنن ترمذي/كتاب الوصايا/حدیث: 2119]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
ابن ابی اوفی رضی اللہ عنہ نے یہ سمجھا کہ یہ سوال کسی خاص وصیت کے تعلق سے ہے اسی لیے نفی میں جواب دیا،
اس سے مطلق وصیت کی نفی مقصود نہیں ہے،
بلکہ اس نفی کا تعلق مالی وصیت یا علی رضی اللہ عنہ سے متعلق کسی مخصوص وصیت سے ہے،
ورنہ آپ ﷺ نے وصیت کی جیسا کہ خود ابن ابی اوفیٰ نے بیان کیا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2119