سنن ابن ماجه
كتاب الجهاد -- کتاب: جہاد کے فضائل و احکام
7. بَابُ : فَضْلِ الرِّبَاطِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ
باب: اللہ کے راستے میں مورچہ بندی کی فضیلت۔
حدیث نمبر: 2767
حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي اللَّيْثُ ، عَنْ زُهْرَةَ بْنِ مَعْبَدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" مَنْ مَاتَ مُرَابِطًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَجْرَى عَلَيْهِ أَجْرَ عَمَلِهِ الصَّالِحِ الَّذِي كَانَ يَعْمَلُ، وَأَجْرَى عَلَيْهِ رِزْقَهُ، وَأَمِنَ مِنَ الْفَتَّانِ، وَبَعَثَهُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ آمِنًا مِنَ الْفَزَعِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اللہ کے راستے میں «رباط» (سرحد پر پڑاؤ ڈالے ہوئے) مر جائے، تو جو وہ نیک عمل کرتا تھا اس کا ثواب اس کے لیے جاری رہے گا، جنت میں سے اس کا رزق مقرر ہو گا، قبر کے فتنہ سے محفوظ رہے گا، اور اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن ہر ڈر اور گھبراہٹ سے محفوظ اٹھائے گا۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 14617، ومصباح الزجاجة: 978)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/404) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2767  
´اللہ کے راستے میں مورچہ بندی کی فضیلت۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اللہ کے راستے میں «رباط» (سرحد پر پڑاؤ ڈالے ہوئے) مر جائے، تو جو وہ نیک عمل کرتا تھا اس کا ثواب اس کے لیے جاری رہے گا، جنت میں سے اس کا رزق مقرر ہو گا، قبر کے فتنہ سے محفوظ رہے گا، اور اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن ہر ڈر اور گھبراہٹ سے محفوظ اٹھائے گا۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الجهاد/حدیث: 2767]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
تیاری کا مطلب یہ ہے کہ وہ سرحد پر جنگ لے لیے بالکل تیار ہوتا ہے کہ جونہی جنگ شروع ہو وہ فوراً اس میں شریک ہوجائے۔

(2)
خلوص نیت کی وجہ سے نیک اعمال کا ثواب مل جاتا ہے اگرچہ اس عمل کو انجام دینے کا موقع نہ ملا ہو۔

(3)
ثواب جاری ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ زندگی میں جو نیک اعمال کرتا تھا موت کے بعد بھی مسلسل ان اعمال کے برابر ثواب ملتا رہتا ہے۔

(4)
رزق سے مراد جنت کا رزق ہے۔

(5) (فُتَّانٌ)
آزمانے والوں سے مراد قبر میں حساب کتاب لینے والے فرشتے ہیں۔
ایسے شخص سے قبر میں حساب نہیں لیا جاتا یا وہ سوالوں کا صحیح جواب دیکر کامیاب ہوجاتا ہے۔
اس لفظ (فَتَّانٌ)
بھی پڑھا گیا ہے اس صورت میں اس سے دجال یا شیطان یا عذاب کا فرشتہ مراد ہے۔
محاذ پر وفات پانے والا ان سے محفوظ رہے گا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2767