سنن ابن ماجه
كتاب الجهاد -- کتاب: جہاد کے فضائل و احکام
20. بَابُ : الرَّايَاتِ وَالأَلْوِيَةِ
باب: (جنگ میں) بڑے اور چھوٹے جھنڈوں کے استعمال کا بیان۔
حدیث نمبر: 2816
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ الْحَارِثِ بْنِ حَسَّانَ ، قَالَ:" قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ فَرَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَائِمًا عَلَى الْمِنْبَرِ وَبِلَالٌ قَائِمٌ بَيْنَ يَدَيْهِ مُتَقَلِّدٌ سَيْفًا وَإِذَا رَايَةٌ سَوْدَاءُ، فَقُلْتُ: مَنْ هَذَا؟، قَالُوا: هَذَا عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ قَدِمَ مِنْ غَزَاةٍ".
حارث بن حسان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں مدینہ آیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر کھڑے دیکھا، اور بلال رضی اللہ عنہ آپ کے سامنے گلے میں تلوار ٹکائے ہوئے تھے، پھر اچانک ایک کالا بڑا جھنڈا دکھائی دیا، میں نے کہا: یہ کون ہیں؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ ہیں جو ایک غزوہ سے واپس آئے ہیں۔

تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/تفسیر القرآ ن 51 (2) (3273، 3274)، (تحفة الأشراف: 3277)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/482) (حسن)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: حسن
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2816  
´(جنگ میں) بڑے اور چھوٹے جھنڈوں کے استعمال کا بیان۔`
حارث بن حسان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں مدینہ آیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر کھڑے دیکھا، اور بلال رضی اللہ عنہ آپ کے سامنے گلے میں تلوار ٹکائے ہوئے تھے، پھر اچانک ایک کالا بڑا جھنڈا دکھائی دیا، میں نے کہا: یہ کون ہیں؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ ہیں جو ایک غزوہ سے واپس آئے ہیں۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجهاد/حدیث: 2816]
اردو حاشہ:
  فوائد و مسائل:
(1)
۔
خطبے کے لیے منبر پر کھڑے ہونا مسنون ہے۔

(2)
حفاظتی نقطہ نظر سے کسی بڑے عالم یا قائد کے پاس مسلح شخص کھڑا ہوسکتا ہے۔

(3)
جنگی مہم کے لیے جانے والے دستے کا اہک جھنڈا ہونا چاہیے۔

(4)
جہاد سے واپس انے والوں کی حوصلہ افزائی کے لیے ان کا مناسب استقبال کرنا چاہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2816