سنن ابن ماجه
كتاب الجهاد -- کتاب: جہاد کے فضائل و احکام
41. بَابُ : الْبَيْعَةِ
باب: بیعت کا بیان۔
حدیث نمبر: 2866
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق ، وَيَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، وَعُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ ، وَابْنُ عَجْلَانَ ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الْوَلِيدِ بْنِ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ ، قَالَ:" بَايَعْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى السَّمْعِ وَالطَّاعَةِ فِي الْعُسْرِ وَالْيُسْرِ، وَالْمَنْشَطِ وَالْمَكْرَهِ، وَالْأَثَرَةِ عَلَيْنَا، وَأَنْ لَا نُنَازِعَ الْأَمْرَ أَهْلَهُ، وَأَنْ نَقُولَ الْحَقَّ حَيْثُمَا كُنَّا، لَا نَخَافُ فِي اللَّهِ لَوْمَةَ لَائِمٍ".
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے تنگی اور فراخی، خوشی و ناخوشی، اور اپنے اوپر دوسروں کو ترجیح دئیے جانے کی حالت میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سننے اور اطاعت کرنے پر بیعت کی، نیز اس بات پر بیعت کی کہ حکمرانوں سے نہ جھگڑیں، اور جہاں بھی ہوں حق بات کہیں، اور اللہ کے سلسلے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الفتن 2 (7056)، الأحکام 43 (7199، 7200)، صحیح مسلم/الإمارة 8 (1709)، سنن النسائی/البیعة 1 (4154، 4155)، (تحفة الأشراف: 5118)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الجہاد1 (5)، مسند احمد (4/314، 318، 319، 321، 325) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: یعنی جس بات میں اللہ کی خوشی ہو یعنی ثواب اور عبادت کے کام میں کسی کی بدگوئی سے ہم کو ڈر نہ ہو، یہ مومنین کاملین کی شان ہے کہ وہ سنت پر چلنے میں کسی سے نہیں ڈرتے اور نہ ہی جاہلوں اور اہل بدعت کے غلط پروپگنڈہ سے متاثر ہوتے ہیں، جاہل اور بدعتی حدیث سے محبت رکھنے اور ان پر عمل کرنے والوں کو برے القاب اور خطابات سے پکارتے اور انہیں طرح طرح سے بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جب یہ محبان رسول نماز میں زورسے آمین، رفع یدین اور امام کے پیچھے سورہ فاتحہ کی قرأت کرتے ہیں، تو جاہل مقلد اور بدعتی ان کو لا مذہب کہتے ہیں اور جب شرک کے کاموں سے پرہیز کرتے ہیں، اور غیر اللہ کے پکارنے یا ماسوا اللہ کی عبادت کرنے یا مدد مانگنے سے خود رکتے ہیں اور دوسروں کو روکتے ہیں، تو یہ لوگ انہیں وہابی کے نام سے بدنام کرتے ہیں، اور جب یہ محبان رسول، اللہ تعالیٰ کی صفات جیسے استواء علی العرش، ضحک، (ہنسنا) نزول (آسمان دنیا پر اترنا) وغیرہ وغیرہ ثابت کرتے ہیں تو یہ انہیں مشبہہ کہتے ہیں، اور جب ید (ہاتھ)، وجہ (چہرہ)، عین (آنکھ)، قدم، صوت (آواز) جیسی صفات کا اثبات کرتے ہیں تو وہ انہیں مجسمہ کا لقب دیتے ہیں، لیکن ان سب تہمتوں سے حق پرستوں کو کوئی ڈر نہیں، اور وہ جاہلوں اور بدعتیوں کی عیب جوئی، اور گالی گلوج اور غلط پروپگنڈے سے ڈرتے اور گھبراتے نہیں بلکہ بلا کھٹکے احادیث صحیحہ پر عمل کرتے ہیں، اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبر و ثبات پر اور شرع کی اطاعت اور حاکم کی اطاعت پر بیعت لی۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2866  
´بیعت کا بیان۔`
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے تنگی اور فراخی، خوشی و ناخوشی، اور اپنے اوپر دوسروں کو ترجیح دئیے جانے کی حالت میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سننے اور اطاعت کرنے پر بیعت کی، نیز اس بات پر بیعت کی کہ حکمرانوں سے نہ جھگڑیں، اور جہاں بھی ہوں حق بات کہیں، اور اللہ کے سلسلے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجهاد/حدیث: 2866]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
امیر کی اطاعت ملک و سلطنت کے نظم وضبط میں نہایت اہمیت کی حامل ہے۔

(2)
زندگی میں کئی معاملات ایسے پیش آ سکتے ہیں جب ایک انسان امیر کی اطاعت سے جی چراتا اور اس کی حکم عدولی کی طرف مائل ہوسکتا ہے مثلاً:

(ا)
مشکل حالات میں انسان قانونی شکنی پر آمادہ ہوجاتا ہے۔

(ب)
راحت کے موقع پر آرام چھوڑ کر مشکل حکم کی تعمیل کو جی نہیں چاہتا۔

(ج)
بعض اوقات کام ایسا ہوتا ہے کہ جس کے طبیعت قدرتی طور پر نا پسند کرتی ہے۔

(د)
بعض اوقات انسان خود کوایک منصب کا اہل سمجھتا ہے یا کسی انعام کا مستحق سمجھتا ہے لیکن وہ منصب یا انعام کسی اور کو مل جاتا ہےاور انسان محسوس کرتا ہے کہ اس کی حق تلفی یا بے قدری ہوئی ہے اس سے دلبرداشتہ ہوگر وہ مسلمانوں کے اجتماعی معاملات یا اپنے فرائض میں دلچسپی کم کردیتا ہے۔
حدیث میں وضاحت کی گئی ہے کہ ایسے تمام مواقع پر اللہ کی رضا کو سامنے رکھتے ہوئے اطاعت امیر میں سرگرم رہنا قرب الہی اور بلندی جذبات کا باعث ہے۔

(3)
حکمران بھی انسان ہوتے ہیں ان سے بھی غلطیاں ہوسکتی ہیں لیکن یہ غلطیاں بغاوت کا جواز نہیں بنتی کیونکہ بغاوت سے جو بد نظمی پیدا ہوتی ہے اس کا نقصان غلط کار حکمران کی غلطیوں کے نقصان سے بھی زیادہ ہوسکتا ہے۔

(4)
اطاعت امیر کا مطلب یہ نہیں کہ ہر صحیح اور غلط بات میں اس کی تائید کی جائے۔
اس کی غلطی کو واضح کرنا چاہیے لیکن مقصد مسلمانوں کا اجتماعی مفاد اور امیر سے خیر خواہی ہو نہ کہ اس پر بے جا تنقید کرکے عوام کو اس کے خلاف ابھارنا اور ملک کے امن وامان کو تباہ کرنا۔

(5)
جس کا م پر ضمیر مطمئن ہو کہ یہ صحیح ہے اور وہ خلاف شریعت بھی نہ ہواور اس سے کوئی بڑی خرابی پیدا ہونے کا خطرہ بھی نہ ہو وہ کرلینا چاہیے اگرچہ لوگ اسے اپنے رسم ورواج یا مفاد کے خلاف سمجھ کر طعن و تشنیع کریں تاہم تنقید کرنے والوں کو دلائل کے ساتھ سمجھانے اور قائل کرنے کی کوشش کرنا مستحسن ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2866