سنن ابن ماجه
كتاب الجهاد -- کتاب: جہاد کے فضائل و احکام
44. بَابُ : السَّبَقِ وَالرِّهَانِ
باب: گھوڑ دوڑ میں مقابلہ کا بیان۔
حدیث نمبر: 2876
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى ، قَالَا: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ بْنُ حُسَيْنٍ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ أَدْخَلَ فَرَسًا بَيْنَ فَرَسَيْنِ وَهُوَ لَا يَأْمَنُ أَنْ يَسْبِقَ، فَلَيْسَ بِقِمَارٍ، وَمَنْ أَدْخَلَ فَرَسًا بَيْنَ فَرَسَيْنِ وَهُوَ يَأْمَنُ أَنْ يَسْبِقَ، فَهُوَ قِمَارٌ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے دو گھوڑوں کے مابین ایک گھوڑا داخل کیا، اور اسے جیتنے کا یقین نہیں تو یہ جوا نہیں ہے، لیکن جس شخص نے دو گھوڑوں کے مابین ایک گھوڑا داخل کیا، اور اسے جیتنے کا یقین ہے تو یہ جوا ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الجہاد 49 (2579)، (تحفة الأشراف: 13121)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/505) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (سفیان بن حسین کی زہری سے روایت میں ضعف ہے، نیز ملاحظہ ہو: الإروا ء: 1509)

قال الشيخ الألباني: ضعيف
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2579  
´گھوڑ دوڑ میں محلل کی شرکت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص دو گھوڑوں کے درمیان ایک گھوڑا داخل کر دے اور گھوڑا ایسا ہو کہ اس کے آگے بڑھ جانے کا یقین نہ ہو تو وہ جوا نہیں، اور جو شخص ایک گھوڑے کو دو گھوڑوں کے درمیان داخل کرے اور وہ اس کے آگے بڑھ جانے کا یقین رکھتا ہو تو وہ جوا ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2579]
فوائد ومسائل:
اس باب کی احادیث سمجھنے کے لئے چند امور معلوم ہونے چاہیں:

اگر امیر المجاہدین یا کوئی اور شخص دو شہسواروں میں دوڑ وغیرہ کا مقابلہ کرائے اور جیتنے والے کو انعام واکرام دے تو جائز ہے۔


لیکن دو افراد (یا فریق) آپس میں یہ طے کر کے مقابلہ کریں کہ ہارنے والا جیتنے والے کو اس قدر انعام دے گا تو یہ جوا ہے۔
اور ناجائز ہے۔


اگر ان دو مقابلہ کرنے والوں میں کوئی تیسرا فریق داخل ہو جائے جس کے جیتنے یا ہارنے کا کوئی یقین نہ ہو بلکہ ان کے ہم پلہ ہونے کی بناء پر کوئی بھی نتیجہ نکل سکتا ہو کہ اس کے جیت جانے پر وہ دونوں اس کو انعام دیں او ر ہار جانے پر اس پر کچھ بھی لازم نہ آتا ہو تو یہ صورت جائز ہے۔
چونکہ اس کا ان دو میں داخل ہوجانا ان کے انعام لین دینے کو جائز بنا دیتا ہے، اس وجہ سے اسے محلل کہا جاتا ہے۔
محلل یعنی (جوئے سے) حلال کرنے والا۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2579