سنن ابن ماجه
كتاب الجهاد -- کتاب: جہاد کے فضائل و احکام
44. بَابُ : السَّبَقِ وَالرِّهَانِ
باب: گھوڑ دوڑ میں مقابلہ کا بیان۔
حدیث نمبر: 2878
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِي الْحَكَمِ مَوْلَى بَنِي لَيْثٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا سَبْقَ إِلَّا فِي خُفٍّ أَوْ حَافِرٍ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسابقت (آگے بڑھنے) کی شرط گھوڑے اور اونٹ کے علاوہ کسی میں جائز نہیں ۱؎۔

تخریج الحدیث: «سنن النسائی/الخیل 13 (3615)، (تحفة الأشراف: 14877)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الجہاد 67 (2574)، سنن الترمذی/الجہاد 22 (1700)، مسند احمد (2/256، 358، 425، 474) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: ترمذی اور ابوداود کی روایت میں «أو نصل» (یا تیر میں) زیادہ ہے،مطلب یہ ہے کہ ان تینوں میں آگے بڑھنے کی شرط لگانا اور جیتنے پر مال لینا جائز ہے، تیر میں یہ شرط ہے کہ کس کا دور جاتا ہے، علامہ طیبی کہتے ہیں کہ گدھے اور خچر بھی گھوڑے کی طرح ہیں، ان میں بھی شرط درست ہو گی، لیکن حدیث میں یہ تین چیزیں مذکور ہیں: «نصل» یعنی تیر، «خف» یعنی اونٹ، «حافر» یعنی گھوڑا، ایک شخص نے حدیث میں اپنی طرف سے یہ بڑھا دیا «أو جناح» یعنی پرندہ اڑانے میں شرط لگانا درست ہے جیسے کبوتر باز کیا کرتے ہیں اور یہ لفظ اس وقت روایت کیا جب ایک عباسی خلیفہ کبوتر بازی کر رہا تھا، یہ شخص خلیفہ کے پاس گیا اور اس کا دل خوش کرنے اور کبوتر بازی کو جائز کرنے کی خاطر حدیث میں یہ لفظ اپنی طرف سے بڑھا دیا اور اللہ کا خوف بالکل نہ کیا، اللہ تعالیٰ ائمہ حدیث کو جزائے خیر دے اگر وہ محنت کر کے صحیح حدیثوں کو جھوٹی اور ضعیف حدیثوں سے الگ نہ کرتے تو دین برباد ہو جاتا، حدیث سے یہ اہتمام اس امت سے خاص ہے، اگلی امتوں والے کتاب الہی کی بھی اچھی طرح حفاظت نہ کر سکے حدیث کا کیا ذکر «ذلك فضل الله يؤتيه من يشاء والله ذو الفضل العظيم» (سورة الجمعة: 4)۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2878  
´گھوڑ دوڑ میں مقابلہ کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسابقت (آگے بڑھنے) کی شرط گھوڑے اور اونٹ کے علاوہ کسی میں جائز نہیں ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجهاد/حدیث: 2878]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1) (حافر)
اس کھر کو کہتے ہیں جو آگے سے دو حصوں میں تقسیم نہیں ہوتا جیسے گھوڑے گدھے یا خچر کا کھر ہوتا ہے۔
یہاں مراد وہ جانور ہیں جن کا اس طرح کا کھر ہوتا ہے۔

(2)
گھوڑے جہاد میں استعمال ہوتے ہیں اس لیے ان کی تربیت اور دیکھ بھال کی ترغیب کے لیے ان کی دوڑ کے مقابلے کرائے جا سکتے ہیں۔
دوسری احادیث سے پیدل دوڑ تیر اندازی اور کشتی کے مقابلوں کا ثبوت بھی ملتا ہے لہٰذا ہر اس کھیل کی حوصلہ افزائی کرنے کا جواز ہے جس سے جہاد میں مدد ملے۔
دوسرے کھیلوں میں حصہ لینا اور ان کی حوصلہ افزائی کرنا وقت دولت اور صلاحیتوں کا ضیاع ہے اس لیے ان سے اجتناب کرنا چاہیے۔

(3)
فی سبیل اللہ مال خرچ کرنے میں اور علم و تعلیم میں مسابقت شرعاً مستحسن ہے۔ (سنن ابن ماجه، حديث: 8-42)
اس لیے تعلیمی اداروں میں حفظ قرآن، تجوید، حفظ حدیث، حسن قرات، نعت رسول اور مختلف دینی موضوعات پر تقریر وتحریرکے مقابلے منعقد کرانا اور ان میں سبقت حاصل کرنے والوں کو انعام دینا درست ہے۔
کیونکہ اس سے دینی علوم کے حصول کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور یہ ایک قسم کا علمی جہاد ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2878   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1132  
´گھڑ دوڑ اور تیراندازی کا بیان`
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اونٹوں، گھوڑوں اور تیر اندازی کے سوا اور کسی چیز میں مسابقت نہیں۔ اسے احمد اور تینوں نے روایت کیا ہے اور ابن حبان نے اسے صحیح کہا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1132»
تخریج:
«أخرجه أبوداود، الجهاد، باب في السبق، حديث:2574، وأحمد:2 /474، والنسائي، الخيل، حديث:3615، وابن حبان (الموارد)، حديث:1638، والترمذي، الجهاد، حديث:1700، وابن ماجه، الجهاد، حديث:2878.»
تشریح:
1. سبل السلام میں ہے کہ یہ حدیث دلیل ہے کہ مقررہ انعام کی صورت میں دوڑ کا مقابلہ کرانا جائز ہے۔
2. اگر انعام دوڑ کے مقابلے میں حصہ لینے والوں کے علاوہ کسی اور کی جانب سے ہے‘ جیسے امیر یا حاکم جیتنے والے کو کوئی انعام دے تو یہ بغیر کسی خوف و تردد کے جائز ہے اور اگر یہ انعام مقابلے میں حصہ لینے والوں میں سے کسی ایک کی جانب سے ہو تو یہ جائز نہیں‘ یہ جوا ہے۔
3.مذکورہ بالا تین کاموں میں شرط کرکے انعام جیتنا اس لیے حلال ہے کہ یہ جنگ کی تیاری و تربیت اور ٹریننگ ہے اور جہاد کے لیے قوت تیار کرنا ہے۔
اسی لیے مذکورہ صورتوں کے سوا شرط کرکے مال لینا قمار (جوا بازی)ہے جو کہ ممنوع ہے‘ جیسے کبوتروں کی مقابلہ بازی ‘ نیز مرغوں کو لڑا کر انعام حاصل کرنا وغیرہ۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1132   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1700  
´گھڑ دوڑ میں شرط لگانے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا: مقابلہ صرف تیر، اونٹ اور گھوڑوں میں جائز ہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الجهاد/حدیث: 1700]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
بشرطیکہ یہ انعام کا مال مقابلے میں حصہ لینے والوں کی طرف سے نہ ہو،
اگر ان کی طرف سے ہے تو یہ قمار و جوا ہے جو جائز نہیں ہے،
معلوم ہواکہ مقررہ انعام کی صورت میں مقابلے کرانا درست ہے،
لیکن یہ مقابلے صرف انہی کھیلوں میں جائز ہیں،
جن کے ذریعہ نوجوانوں میں جنگی ودفاعی ٹرینگ ہو،
کبوتر بازی،
غلیل بازی،
پتنگ بازی وغیرہ کے مقابلے تو سراسر ذہنی عیاشی کے سامان ہیں،
موجودہ دور کے کھیل بھی بے کار ہی ہیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1700   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2574  
´گھوڑ دوڑ کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مقابلہ میں بازی رکھنا جائز نہیں ۱؎ سوائے اونٹ یا گھوڑے کی دوڑ میں یا تیر چلانے میں۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2574]
فوائد ومسائل:
(السبق) ب کی جزم کے ساتھ مصدر ہے اور معنی ہیں آگے بڑھنا۔
اور اگر ب پر زبر پڑھی جائی تو اس سے وہ مال اور انعا م مراد ہوتا ہے۔
جو کسی مقابلہ پردیا جائے۔
درج ذیل روایت میں یہ کلمہ ب پر زبر کے ساتھ پڑھا جاتا ہے۔
فائدہ۔
جہاد اور تعلیم وتربیت کے مختلف امور میں مقابلہ کرنا کرانا اسی پر قیاس ہے، مگر ایسے تمام امور جن کا کوئی حاصل نہ ہو ان میں مقابلہ بازی ناجائز اور باطل ہے۔
مثلا کبوتر اڑانا یا مرغ اور بٹیر لڑانا وغیرہ۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2574