صحيح البخاري
كِتَاب الْبُيُوعِ -- کتاب: خرید و فروخت کے مسائل کا بیان
27. بَابُ مَا يُكْرَهُ مِنَ الْحَلِفِ فِي الْبَيْعِ:
باب: خرید و فروخت میں قسم کھانا مکروہ ہے۔
حدیث نمبر: 2088
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا الْعَوَّامُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ،" أَنَّ رَجُلًا أَقَامَ سِلْعَةً وَهُوَ فِي السُّوقِ، فَحَلَفَ بِاللَّهِ، لَقَدْ أَعْطَى بِهَا مَا لَمْ يُعْطِ لِيُوقِعَ فِيهَا رَجُلًا مِنَ الْمُسْلِمِينَ، فَنَزَلَتْ: إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَأَيْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِيلا سورة آل عمران آية 77 الْآيَةَ".
ہم سے عمرو بن محمد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ہشیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو عوام بن حوشب نے خبر دی، انہیں ابراہیم بن عبدالرحمٰن نے اور انہیں عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ نے کہ بازار میں ایک شخص نے ایک سامان دکھا کر قسم کھائی کہ اس کی اتنی قیمت لگ چکی ہے۔ حالانکہ اس کی اتنی قیمت نہیں لگی تھی اس قسم سے اس کا مقصد ایک مسلمان کو دھوکہ دینا تھا۔ اس پر یہ آیت اتری «إن الذين يشترون بعهد الله وأيمانهم ثمنا قليلا» جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کو تھوڑی قیمت کے بدلہ میں بیچتے ہیں۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2088  
2088. حضرت عبد اللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے منڈی میں اپنا سامان لگایا اور اللہ کی قسم اٹھا کر کہنے لگا کہ مجھے اس کی اتنی قیمت ملتی ہے، حالانکہ اسے نہیں ملتی تھی۔ اس کا مقصد کسی مسلمان کو پھنسانا تھا اس کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی۔ "إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّـهِ وَأَيْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِيلًا" "جولوگ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کے عوض بہت کم قیمت لیتے ہیں۔ " [صحيح بخاري، حديث نمبر:2088]
حدیث حاشیہ:
آخرت میں ان کے لیے کچھ حصہ نہیں ہے اور نہ ان سے اللہ کلام کرے گا اور نہ ان پر نظر رحمت ہوگی۔
اور نہ ان کو پاک کرے گا بلکہ ان کے لیے دکھ دینے والا عذاب ہے۔
معلوم ہوا کہ اللہ کے نام کی جھوٹی قسم کھانا بدترین گناہ ہے۔
علمائے کرام نے کسی سچے معاملہ میں بھی بطور تنزیہ اللہ کے نام کی قسم کھانا پسند نہیں کیا ہے۔
مسند احمد میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اپنی ازار کو ٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا اور جھوٹی قسموں سے اپنا مال فروخت کرنے والا اور احسان جتلانے والا یہ وہ مجرم ہیں جن پر حشر میں اللہ کی نظر رحمت نہیں ہوگی۔
حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد باب یہ ہے کہ تجارت میں ہر وقت سچائی کو سامنے رکھنا ضروری ہے۔
ورنہ جھوٹ بولنے والا تاجر عنداللہ سخت مجرم قرار پاتا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2088   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2088  
2088. حضرت عبد اللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے منڈی میں اپنا سامان لگایا اور اللہ کی قسم اٹھا کر کہنے لگا کہ مجھے اس کی اتنی قیمت ملتی ہے، حالانکہ اسے نہیں ملتی تھی۔ اس کا مقصد کسی مسلمان کو پھنسانا تھا اس کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی۔ "إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّـهِ وَأَيْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِيلًا" "جولوگ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کے عوض بہت کم قیمت لیتے ہیں۔ " [صحيح بخاري، حديث نمبر:2088]
حدیث حاشیہ:
(1)
جو تاجر جھوٹی قسم اٹھا کر اپنا سامان فروخت کرتا ہے وہ انتہائی خسارے میں ہے۔
قرآنی آیت کے مطابق ایسے لوگوں کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوگا،قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں سے ہم کلام نہیں ہوگا،نہ ان کی طرف نظر رحمت ہی سے دیکھے گا،نیز انھیں گناہوں سے پاک بھی نہیں کرے گا بلکہ ان کے لیے درد ناک عذاب ہوگا۔
حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا"تین شخص قیامت کے دن خسارے میں ہوں گے:
ایک اپنی چادر ٹخنوں سے نیچے لٹکاکر چلنے والا،دوسرا جھوٹی قسم اٹھا کر سامان فروخت کرنے والا اور تیسرا کسی پر احسان کرکے جتلانے والا۔
"(مسند احمد: 5/148) (2)
غلط فتویٰ دے کر اس کے عوض مال وصول کرنا،کسی سے کوئی چیز لے کر مکر جانا اور قسم اٹھالینا، الغرض بددیانتی کی جتنی بھی اقسام ہوسکتی ہیں ان سب پر مذکورہ آیت کا اطلاق ہوتا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2088