سنن ابن ماجه
كتاب المناسك -- کتاب: حج و عمرہ کے احکام و مسائل
26. بَابُ : دُخُولِ مَكَّةَ
باب: مکہ میں داخل ہونے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2942
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ عُثْمَانَ ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيْنَ تَنْزِلُ غَدًا؟ وَذَلِكَ فِي حَجَّتِهِ، قَالَ:" وَهَلْ تَرَكَ لَنَا عَقِيلٌ مَنْزِلًا؟"، ثُمَّ قَالَ:" نَحْنُ نَازِلُونَ غَدًا بِخَيْفِ بَنِي كِنَانَةَ، يَعْنِي الْمُحَصَّبَ، حَيْثُ قَاسَمَتْ قُرَيْشٌ عَلَى الْكُفْرِ"، وَذَلِكَ أَنَّ بَنِي كِنَانَةَ حَالَفَتْ قُرَيْشًا عَلَى بَنِي هَاشِمٍ، أَنْ لَا يُنَاكِحُوهُمْ وَلَا يُبَايِعُوهُمْ، قَالَ مَعْمَرٌ، قَالَ الزُّهْرِيُّ: وَالْخَيْفُ الْوَادِي.
اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ کل (مکہ میں) کہاں اتریں گے؟ یہ بات آپ کے حج کے دوران کی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا عقیل نے ہمارے لیے کوئی گھر باقی چھوڑا ہے؟ ۱؎ پھر فرمایا: ہم کل «خیف بنی کنانہ» یعنی محصب میں اتریں گے، جہاں قریش نے کفر پر قسم کھائی تھی، اور وہ یہ تھی کہ بنی کنانہ نے قریش سے عہد کیا تھا کہ وہ بنی ہاشم سے نہ تو شادی بیاہ کریں گے اور نہ ان سے تجارتی لین دین ۲؎۔ زہری کہتے ہیں کہ «خیف» وادی کو کہتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الحج 44 (1588)، الجہاد180 (3058)، مناقب الأنصار 39 (4282)، المغازي 48 (4282)، التوحید 31 (7479)، صحیح مسلم/الحج 80 (1351)، سنن ابی داود/الفرائض 10 (2909، 10 29)، (تحفة الأشراف: 114)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الفرائض 15 (2107)، موطا امام مالک/الفرائض 13 (10)، مسند احمد (2/237، سنن الدارمی/الفرائض 29 (3026) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: یعنی ابوطالب کی ساری جائداد اور مکان عقیل نے بیچ کھائی، ایک مکان بھی باقی نہ رکھا کہ ہم اس میں اتریں جب علی اور جعفر رضی اللہ عنہما اور ابوطالب کے بیٹے مسلمان ہو گئے اور انہوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ کو ہجرت کی تو عقیل اور طالب دو بھائی جو ابھی تک کافر تھے مکہ میں رہ گئے، اور ابوطالب کی کل جائداد انہوں نے لے لی، اور جعفر رضی اللہ عنہ کو اس میں سے کچھ حصہ نہ ملا کیونکہ وہ دونوں مسلمان ہو گئے اور مسلمان کافر کا وارث نہیں ہوتا۔
۲؎: یہ جگہ سیرت کی کتابوں میں شعب أبی طالب سے مشہور ہے، جہاں پر ابو طالب بنی ہاشم اور بنی مطلب کو لے کر چھپ گئے تھے، اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی پناہ میں لے لیا تھا، اور قریش کے کافروں نے عہد نامہ لکھا تھا کہ ہم بنی ہاشم اور بنی مطلب سے نہ شادی بیاہ کریں گے نہ اور کوئی معاملہ، اور اس کا قصہ طویل ہے اور سیرت کی کتابوںمیں بالتفصیل مذکور ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2942  
´مکہ میں داخل ہونے کا بیان۔`
اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ کل (مکہ میں) کہاں اتریں گے؟ یہ بات آپ کے حج کے دوران کی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا عقیل نے ہمارے لیے کوئی گھر باقی چھوڑا ہے؟ ۱؎ پھر فرمایا: ہم کل «خیف بنی کنانہ» یعنی محصب میں اتریں گے، جہاں قریش نے کفر پر قسم کھائی تھی، اور وہ یہ تھی کہ بنی کنانہ نے قریش سے عہد کیا تھا کہ وہ بنی ہاشم سے نہ تو شادی بیاہ کریں گے اور نہ ان سے تجارتی لین دین ۲؎۔ زہری کہتے ہیں کہ «خیف» وادی کو کہتے ہیں۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 2942]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اس واقعہ میں قبائل کے جس معاہدے کا ذکر ہے اسی کی وجہ سے بنو ہاشم کو تین سال تک شعب بنی ہاشم میں رہنا پڑا تھا جسے شعب ابی طالب بھی کہتے ہیں۔

(2)
مزید فوائد کے لیے ملاحظہ کیجیے (حدیث: 2730)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2942   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2910  
´کیا مسلمان کافر کا وارث ہوتا ہے؟`
اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کل آپ (مکہ میں) کہاں اتریں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا عقیل نے ہمارے لیے کوئی جائے قیام چھوڑی ہے؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہم بنی کنانہ کے خیف یعنی وادی محصب میں اتریں گے، جہاں قریش نے کفر پر جمے رہنے کی قسم کھائی تھی۔‏‏‏‏ بنو کنانہ نے قریش سے عہد لیا تھا کہ وہ بنو ہاشم سے نہ نکاح کریں گے، نہ خرید و فروخت، اور نہ انہیں اپنے یہاں جگہ (یعنی پناہ) دیں گے۔ زہری کہتے ہیں: خیف ایک وادی کا نام ہے ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب الفرائض /حدیث: 2910]
فوائد ومسائل:
فائدہ: ابو طالب کی وفات کے موقع پر عقیل اسلام نہ لائے تھے، اسی وجہ سے وہی اس کے وارث ہوئے۔
جبکہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسلمان ہو چکے تھے۔
اس لئے وہ اختلاف دین کی وجہ سے اپنے باپ کے وارث نہ بنے۔
اور عقیل جوں ہی عبد المطلب کی جایئداد کے مالک بنے۔
انہوں نے اس کو فروخت کر دیا تھا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2910