سنن ابن ماجه
كتاب المناسك -- کتاب: حج و عمرہ کے احکام و مسائل
27. بَابُ : اسْتِلاَمِ الْحَجَرِ
باب: حجر اسود کے استلام (چومنے یا چھونے) کا بیان۔
حدیث نمبر: 2943
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا عَاصِمٌ الْأَحْوَلُ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَرْجِسَ ، قَالَ: رَأَيْتُ الْأُصَيْلِعَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ يُقَبِّلُ الْحَجَرَ، وَيَقُولُ:" إِنِّي لَأُقَبِّلُكَ وَإِنِّي لَأَعْلَمُ أَنَّكَ حَجَرٌ لَا تَضُرُّ وَلَا تَنْفَعُ، وَلَوْلَا أَنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَبِّلُكَ، مَا قَبَّلْتُكَ".
عبداللہ بن سرجس کہتے ہیں کہ میں نے «اصیلع» یعنی عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ حجر اسود کو چوم رہے تھے، اور کہہ رہے تھے: میں تجھے چوم رہا ہوں حالانکہ مجھے معلوم ہے کہ تو ایک پتھر ہے، جو نہ نقصان پہنچا سکتا ہے نہ فائدہ، اور میں نے اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے چومتے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے نہ چومتا ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الحج 41 (1270)، (تحفة الأشراف: 10486)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الحج 50 (1597)، 57 (1605)، 60 (1610)، سنن ابی داود/الحج 47 (1873)، سنن الترمذی/الحج 37 (860)، سنن النسائی/الحج 147 (2940)، موطا امام مالک/الحج 36 (115)، مسند احمد (1/21، 26، 34، 35، 39، 46، 51، 53، 54)، سنن الدارمی/المناسک 42 (1906) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: «اصیلع»: «اصلع» کی تصغیر ہے جس کے سر کے اگلے حصے کے بال جھڑ گئے ہوں اس کو «اصلع» کہتے ہیں۔
۲؎: کیونکہ پتھر کا چومنا اسلامی شریعت میں جائز نہیں ہے، اس لیے کہ اس میں کفار کی مشابہت ہے، کیونکہ وہ بتوں تصویروں اور پتھروں کو چومتے ہیں، اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل کے سبب سے حجر اسود کا چومنا خاص کیا گیا ہے، عمر رضی اللہ عنہ نے یہ کہا کہ اگر میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے چومتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تم کو نہ چومتا، تو پھر دوسری قبروں اور مزاروں کا چومنا کیوں کر جائز ہو گا، عمر رضی اللہ عنہ نے یہ اس لیے فرمایا کہ جاہلیت اور شرک کا زمانہ قریب گزرا تھا، ایسا نہ ہو کہ بعض کچے مسلمان حجر اسود کے چومنے سے دھوکہ کھائیں، اور حجر اسود کو یہ سمجھیں کہ اس میں کچھ قدرت یا اختیار ہے جیسے مشرک بتوں کے بارے میں خیال کرتے تھے، آپ نے بیان کر دیا کہ حجر اسود ایک پتھر ہے اس میں کچھ اختیار اور قدرت نہیں اور اس کا چومنا محض رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدار اور پیروی کے لئے ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2943  
´حجر اسود کے استلام (چومنے یا چھونے) کا بیان۔`
عبداللہ بن سرجس کہتے ہیں کہ میں نے «اصیلع» یعنی عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ حجر اسود کو چوم رہے تھے، اور کہہ رہے تھے: میں تجھے چوم رہا ہوں حالانکہ مجھے معلوم ہے کہ تو ایک پتھر ہے، جو نہ نقصان پہنچا سکتا ہے نہ فائدہ، اور میں نے اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے چومتے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے نہ چومتا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 2943]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
طواف کعبہ کے دوران میں حجر اسود کو بوسہ دینا درست ہے لیکن اس مقصد کے لیے دھکم پیل کرنا جائز نہیں۔
اگر آسانی سے بوسہ دینا ممکن ہوتو یہ بہتر ہےورنہ چھڑی یا ہاتھ حجر اسود کو لگا کر اسے بوسہ دیا جائے۔
اگر چھڑی یا ہاتھ بھی حجر اسود کو لگانا مشکل ہو تو حجر اسود کی طرف اشارہ کر کے آگے گزرجانا چاہیے۔
اس صورت میں اپنے ہاتھ کو بوسہ نہیں دیا جائے۔

(2)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مذکورہ بات اس لیے یاد فرمائی کہ توحید اور اتباع کا مسئلہ واضح ہوجائے۔
مشرکین بتوں کو یا بزرگوں سے منسوب چیزوں کو حصول برکت کے لیے چھوتے تھےاورسمجھتے تھےکہ انھیں چھونے سے حاجتیں پوری ہوسکتی ہیں۔
مسلمانوں کے حجر اسود کے چھونے سے یہ شبہ نہیں ہوناچاہیے کہ پتھر کی پوجا کرتے ہیں بلکہ یہ تو سرف اتباع سنت کے طور پر کرتےہیں۔

(3)
حجر اسود کے سوا کعبہ کا کوئی اور حصہ چومنا مناسب نہیں اس لیے کعبہ کی دیواروں کو یا کعبہ شریف کے دروازے کی چوکھٹ کو یا مقام ابراہیم کی جالی کو چومنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔

(4)
رکن یمانی کو بھی چومنا مناسب نہیں صرف ہاتھ لگانا سنت ہے۔
طواف کے دوران میں آسانی سے ہوسکے تو رکن یمانی کو ہاتھ لگایا جائے ورنہ اشارہ وغیرہ کرنے کی ضرورت نہیں ایسے ہی آگے گزر جائیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2943