سنن ابن ماجه
كتاب المناسك -- کتاب: حج و عمرہ کے احکام و مسائل
40. بَابُ : التَّمَتُّعِ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ
باب: حج تمتع کا بیان۔
حدیث نمبر: 2976
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُصْعَبٍ ، ح وحَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدِّمَشْقِيُّ يَعْنِي دُحَيْمًا ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ ، حَدَّثَنِي عِكْرِمَةُ ، حَدَّثَنَا ابْنُ عَبَّاسٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ وَهُوَ بِالْعَقِيقِ:" أَتَانِي آتٍ مِنْ رَبِّي، فَقَالَ: صَلِّ فِي هَذَا الْوَادِي الْمُبَارَكِ، وَقُلْ عُمْرَةٌ فِي حَجَّةٍ" وَاللَّفْظُ لِدُحَيْمٍ.
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وادی عقیق ۱؎ میں فرماتے سنا: میرے پاس میرے رب کی طرف سے ایک آنے والا آیا، اور اس نے کہا: اس مبارک وادی میں نماز پڑھو اور کہو: یہ عمرہ ہے حج میں (یہ الفاظ دحیم کے ہیں)۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الحج 16 (1534)، سنن ابی داود/الحج 24 (1800)، (تحفة الأشراف: 10513)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/24) صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: عقیق: مسجد نبوی سے چار میل (تقریباً ساڑھے چھ کلو) کی دوری پر ایک وادی ہے اور اب شہر کا ایک حصہ ہے۔ یہ جملہ «وقل: عمرة في حجة» احادیث میں تین طرح سے وارد ہے، مسکین کی روایت میں جسے انہوں نے اوزاعی سے روایت کیا ہے «قال: عمرة في حجة» ماضی کے صیغے کے ساتھ ہے اور ولید بن مسلم اور عبدالواحد کی روایت میں «وقل: عمرة في حجة» امر کے صیغے کے ساتھ ہے اور بخاری کی روایت میں «وقل: عمرة و حجة» ہے «عمرة» اور «حجة» کے درمیان واو عاطفہ کے ساتھ۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2976  
´حج تمتع کا بیان۔`
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وادی عقیق ۱؎ میں فرماتے سنا: میرے پاس میرے رب کی طرف سے ایک آنے والا آیا، اور اس نے کہا: اس مبارک وادی میں نماز پڑھو اور کہو: یہ عمرہ ہے حج میں (یہ الفاظ دحیم کے ہیں)۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 2976]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
آنے والے سے مراد فرشتہ ہے جس نے آ کر بتایا کہ حج کے ساتھ عمرے کی نیت بھی کر لیجیے۔

(2)
حج میں عمرہ داخل ہونے کا ایک مطلب یہ ہے کہ حج کے مہینوں میں عمرہ ادا کرنا جائز ہے۔
جب کہ اہل عرب اس کو جائز نہیں سمجھتے تھے۔
دوسرا مطلب یہ ہے کہ حج قران میں حج اور عمرے کے لیے ایک ہی احرام ایک ہی طواف اور ایک ہی سعی کافی ہے۔
یعنی حج کے اعمال ادا کرنے سے عمرے کے اعمال خود بخود ادا شدہ سمجھے جائیں گے۔
واللہ اعلم۔

(3)
وادی عتیق مدینہ کے قریب چار میل کے فاصلے پر واقع ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2976   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1800  
´حج قران کا بیان۔`
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: آج رات میرے پاس میرے رب عزوجل کی جانب سے ایک آنے والا (جبرائیل) آیا (آپ اس وقت وادی عقیق ۱؎ میں تھے) اور کہنے لگا: اس مبارک وادی میں نماز پڑھو، اور کہا: عمرہ حج میں شامل ہے۔‏‏‏‏ ابوداؤد کہتے ہیں: ولید بن مسلم اور عمر بن عبدالواحد نے اس حدیث میں اوزاعی سے یہ جملہ «وقل عمرة في حجة» (کہو! عمرہ حج میں ہے) نقل کیا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسی طرح اس حدیث میں علی بن مبارک نے یحییٰ بن ابی کثیر سے «وقل عمرة في حجة» کا جملہ نقل ۲؎ کیا ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1800]
1800. اردو حاشیہ: وادی عقیق مدینہ کے قریب چار میل کے فاصلے پر واقع ہے اور ذوالحلیفہ سے ہو کر گزرتی ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1800