سنن ابن ماجه
كتاب المناسك -- کتاب: حج و عمرہ کے احکام و مسائل
43. بَابُ : السَّعْيِ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ
باب: صفا اور مروہ کے درمیان سعی کا بیان۔
حدیث نمبر: 2987
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ الدَّسْتُوَائِيُّ ، عَنْ بُدَيْلِ بْنِ مَيْسَرَةَ ، عَنْ صَفِيَّةَ بِنْتِ شَيْبَةَ ، عَنْ أُمِّ وَلَدٍ لِشَيْبَةَ ، قَالَتْ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْعَى بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ وَهُوَ يَقُولُ:" لَا يُقْطَعُ الْأَبْطَحُ إِلَّا شَدًّا".
شیبہ کی ام ولد رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرتے دیکھا، آپ فرما رہے تھے: ابطح کو دوڑ ہی کر طے کیا جائے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «سنن النسائی/الحج 177 (2983)، (تحفة الأشراف: 18382)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/404، 405) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: ام ولد: ایسی لونڈی جس نے اپنے مالک کے بچہ کو جنا ہو۔ ابطح: صفا اور مروہ کے درمیان ایک مقام ہے، اب وہاں دو ہرے نشان بنا دئیے گئے ہیں، وہاں دوڑ کر سعی کرنی چاہئے یہ ہاجرہ علیہا السلام کی سنت ہے، وہ پانی کی تلاش میں یہاں سات بار دوڑی تھیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2987  
´صفا اور مروہ کے درمیان سعی کا بیان۔`
شیبہ کی ام ولد رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرتے دیکھا، آپ فرما رہے تھے: ابطح کو دوڑ ہی کر طے کیا جائے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 2987]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
ابطح (سنگریزوں والی زمین)
سے مراد صفا اور مروہ کے درمیان کی وادی ہے۔

(2)
سعی کی جگہ صفا اور مروہ دونوں پہاڑوں کے درمیان ہے۔
پہاڑوں پر چڑھتے یا ان سے اترتے وقت دوڑنا مسنون نہیں۔

(3)
آج کل سعی کی جگہ کو ہموار کرکے پختہ رستہ بنا دیا گیا ہے۔
نبی اکرم ﷺ کے زمانہ مبارک میں جتنی جگہ ہموار تھی اس کی حد بندی سبز نشانوں سے کر دی گئی ہے۔
یہ نشان ميلين اخضرين کہلاتے ہیں۔
ان کے درمیان دوڑنا چاہیے۔
باقی فاصلہ عام رفتار سے طے کرنا چاہیے۔

(4)
موجودہ عمارت میں اوپر کی منزل میں بھی سعی کی جا سکتی ہے۔
وہاں بھی سبز رنگ سے دوڑنے کی جگہ کا تعین کردیا گیا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2987