سنن ابن ماجه
كتاب المناسك -- کتاب: حج و عمرہ کے احکام و مسائل
48. بَابُ : الْعُمْرَةِ مِنَ التَّنْعِيمِ
باب: تنعیم سے عمرہ کا بیان۔
حدیث نمبر: 3000
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ نُوَافِي هِلَالَ ذِي الْحِجَّةِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ أَرَادَ مِنْكُمْ أَنْ يُهِلَّ بِعُمْرَةٍ فَلْيُهْلِلْ، فَلَوْلَا أَنِّي أَهْدَيْتُ، لَأَهْلَلْتُ بِعُمْرَةٍ"، قَالَتْ: فَكَانَ مِنَ الْقَوْمِ مَنْ أَهَلَّ بِعُمْرَةٍ، وَمِنْهُمْ مَنْ أَهَلَّ بِحَجٍّ، فَكُنْتُ أَنَا مِمَّنْ أَهَلَّ بِعُمْرَةٍ. (حديث مرفوع) (حديث موقوف) قَالَتْ: فَخَرَجْنَا حَتَّى قَدِمْنَا مَكَّةَ، فَأَدْرَكَنِي يَوْمُ عَرَفَةَ، وَأَنَا حَائِضٌ لَمْ أَحِلَّ مِنْ عُمْرَتِي، فَشَكَوْتُ ذَلِكَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:" دَعِي عُمْرَتَكِ، وَانْقُضِي رَأْسَكِ، وَامْتَشِطِي وَأَهِلِّي بِالْحَجِّ"، قَالَتْ: فَفَعَلْتُ، فَلَمَّا كَانَتْ لَيْلَةُ الْحَصْبَةِ، وَقَدْ قَضَى اللَّهُ حَجَّنَا أَرْسَلَ مَعِي عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَبِي بَكْرٍ، فَأَرْدَفَنِي وَخَرَجَ إِلَى التَّنْعِيمِ، فَأَحْلَلْتُ بِعُمْرَةٍ فَقَضَى اللَّهُ حَجَّنَا وَعُمْرَتَنَا، وَلَمْ يَكُنْ فِي ذَلِكَ هَدْيٌ وَلَا صَدَقَةٌ وَلَا صَوْمٌ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہم حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (مدینہ سے) اس حال میں نکلے کہ ہم ذی الحجہ کے چاند کا استقبال کرنے والے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے جو عمرہ کا تلبیہ پکارنا چاہے، پکارے، اور اگر میں ہدی نہ لاتا تو میں بھی عمرہ کا تلبیہ پکارتا، تو لوگوں میں کچھ ایسے تھے جنہوں نے عمرہ کا تلبیہ پکارا، اور کچھ ایسے جنہوں نے حج کا، اور میں ان لوگوں میں سے تھی جنہوں نے عمرہ کا تلبیہ پکارا، ہم نکلے یہاں تک کہ مکہ آئے، اور اتفاق ایسا ہوا کہ عرفہ کا دن آ گیا، اور میں حیض سے تھی، عمرہ سے ابھی حلال نہیں ہوئی تھی، میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی شکایت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنا عمرہ چھوڑ دو، اور اپنا سر کھول لو، اور بالوں میں کنگھا کر لو، اور نئے سرے سے حج کا تلبیہ پکارو، چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا، پھر جب محصب کی رات (بارہویں ذی الحجہ کی رات) ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے ہمارا حج پورا کرا دیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے ساتھ عبدالرحمٰن بن ابی بکر کو بھیجا، وہ مجھے اپنے پیچھے اونٹ پر بیٹھا کر تنعیم لے گئے، اور وہاں سے میں نے عمرہ کا تلبیہ پکارا (اور آ کر اس عمرے کے قضاء کی جو حیض کی وجہ سے چھوٹ گیا تھا) اس طرح اللہ تعالیٰ نے ہمارے حج اور عمرہ دونوں کو پورا کرا دیا، ہم پر نہ «هدي» (قربانی) لازم ہوئی، نہ صدقہ دینا پڑا، اور نہ روزے رکھنے پڑے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/العمرة 5 (1783)، صحیح مسلم/الحج 17 (1211)، (تحفة الأشراف: 17048) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: کیونکہ «هدي» حج تمتع کرنے والے پر واجب ہوتی ہے، اور عائشہ رضی اللہ عنہا کا حج حج افراد تھا کیونکہ حیض آ جانے کی وجہ سے انہیں عمرہ چھوڑ دینا پڑا تھا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 293  
´حج کی تینوں قسموں افراد، قران اور تمتع پر عمل کرنا صحیح ہے`
«. . . عن عائشة انها قالت: خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فى حجة الوداع فاهللنا بعمرة، ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من كان معه هدي فليهلل بالحج مع العمرة ثم لا يحل حتى يحل منهما جميعا . . .»
. . . سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ہم حجتہ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (حج کرنے کے لئے) نکلے۔ ہم نے عمرہ کی لبیک کہی پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کے پاس قربانی کے جانور ہوں تو وہ عمرے کے ساتھ حج کی لبیک کہے پھر جب تک ان دونوں (حج و عمرہ) سے فارغ نہ ہو جائے احرام نہ کھولے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 293]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 1556، ومسلم 1211/111، من حديث مالك به]

تفقه:
➊ حج کی تینوں قسموں افراد، قران اور تمتع پر عمل کرنا بالکل صحیح ہے۔ ديكهئے: [التمهيد 205/8]
● صحیح مسلم (1252) کی ایک صحیح حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ حج افراد قیامت تک جاری رہے گا۔ نیز دیکھئے: [السنن الكبري للبيهقي 2/5]
◄ لہٰذا حج افراد کو منسوخ کہنا باطل ہے۔

تنبیہ:
صحیح احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ حج کی تینوں اقسام میں سے راجح قول کے مطابق حج تمتع سب سے افضل ہے۔
➋ حج قران اور حج افراد میں صرف ایک طواف (بیت اللہ کے سات پھیروں والا طواف) ہے جبکہ حج تمتع کرنے والے کو قربانی کے ساتھ دو طواف کرنے پڑتے ہیں۔ جتنا عمل مسنون زیادہ ہے اتنا ثواب زیادہ ہے۔
➌ حالت حیض میں طواف اور سعی جائز نہیں ہے۔
➍ اس پر اجماع ہے کہ عمرہ کرنے والا پہلے بیت اللہ کا طواف کرے گا اور پھر صفا و مروہ کی سعی کرے گا۔ دیکھئے: [التمهيد216/8] سوائے اس کے کہ وہ عرفات کی رات مکہ پہنچ جائے تو اس صورت میں پہلے عرفات جائے گا تاکہ حج (کا رکن اعظم) رہ نہ جائے۔
➎ حائضہ عورت جس پر عمرہ واجب ہے۔ تنعیم جا کر عمرہ کر سکتی ہے۔
➏ تنعیم مکہ مکرمہ کا ایک مقام ہے جسے آج کل مسجد عائشہ کہا جاتا ہے۔ بعض الناس یہاں سے نفلی عمرے کرتے رہتے ہیں جن کا کوئی ثبوت احادیث صحیحہ اور آثار سلف صالحین سے نہیں ہے۔ نیز دیکھئے: [الموطأ حديث: 39]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 38   
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 298  
´رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج افراد کیا تھا`
«. . . عن عائشة ام المؤمنين: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم افرد الحج . . .»
. . . ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج افراد کیا تھا . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 298]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 1562، ومسلم 118/1211، وابن ماجه 2965، من حديث مالك به]

تفقه
➊ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس صحیح حدیث سے واضح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج افراد کیا تھا۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج افراد کی لبیک کہی تھی۔ [صحيح مسلم: 1231]
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج افراد کی لبیک کہی تھی۔ [صحيح مسلم 1213]
دوسری طرف سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حج اور عمرے کی لبیک کہی تھی۔ [صحيح بخاري: 4353، 4354 وصحيح مسلم: 1232]
اس طرح کی روایات دیگر صحابہ سے بھی ہیں اور یہ متواتر ہے۔ ان دونوں روایتوں میں تطبیق یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے حج افراد کی لبیک کہی اور بعد میں حج قران (عمرے اور حج) کی لبیک کہی۔ ہر صحابی نے اپنے اپنے علم کے مطابق روایت بیان کر دی۔ تفصیل کے لئے دیکھئے: شرح الزرقانی علی موطأ الامام مالک [ج2 ص251]
➋ حج افراد، حج قران اور حج تمتع یہ تینوں قسمیں حج کی ہیں اور قیامت تک ان میں سے ہر قسم پر عمل جائز ہے۔ بعض علماء کا حج افراد کی حدیث کو شاذ یا منسوخ قرار دینا باطل و مردود ہے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! ابن مریم روحاء کی گھاٹی سے حج (افراد) یا عمرہ کرنے (والے حج تمتع) یا دونوں اکٹھے (حج قران) کی لبیک کہتے ہوئے ضرور آئیں گے۔ [صحيح مسلم: 1252، وترقيم دارالسلام: 3030، السنن الكبريٰ للبيهقي 5/2 حاجي كے شب وروز ص82]
اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ حج افراد، حج قران اور حج تمتع قیامت تک باقی رہیں گے۔
➌ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جس نے حج افراد کیا تو اچھا ہے اور جس نے تمتع کیا تو اس نے قرآن مجید اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت (دونوں) پر عمل کیا۔ [السنن الكبريٰ للبيهقي 5/21 وسنده صحيح، حاجي كے شب وروز ص83]
سیدنا ابوبکر و عمر و عثمان رضی اللہ عنھم نے حج افراد کیا۔ [سنن الترمذي: 82٠ وسنده حسن]

تنبیہ:
دوسرے دلائل کو مدنظر رکھتے ہوئے حج تمتع سب سے افضل ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 88   
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 330  
´عورت حیض آنے کی صورت میں طواف نہیں کرے گی`
«. . . 315- وعن أبيه عن عمرة بنت عبد الرحمن عن عائشة زوج النبى صلى الله عليه وسلم أنها قالت لرسول الله صلى الله عليه وسلم: إن صفية بنت حيي قد حاضت فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لعلها تحبسنا، ألم تكن قد طافت معكن بالبيت؟ قلن: بلى، قال: فاخرجن. . . .»
. . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: صفیہ بنت حیی (رضی اللہ عنہا) کو حیض آ گیا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: غالباً وہ ہمیں (حج کے بعد سفر سے) روکنا چاہتی ہے، کیا اس نے تمہارے ساتھ بیت اللہ کا طواف نہیں کیا تھا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں نے کہا: کیوں نہیں! وہ طواف کر چکی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو پھر (سفر کے لیے) نکلو . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 330]

تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 328، ومسلم 385/1211 بعد ح1328، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ عورت حائضہ ہونے کی حالت میں بیت اللہ کا طواف نہیں کرے گی۔
➋ اگر عورت طوافِ زیارت (طوافِ افاضہ) کرلے اور بعد میں اسے حیض کی بیماری لاحق ہوجائے تو اس کے لئے طوافِ وداع ضروری نہیں ہے جبکہ دوسرے لوگوں پر طوافِ وداع ضروری ہے۔
➌ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا جب حج ادا کرتیں اور ان کے ساتھ عورتیں ہوتیں تو آپ انھیں ان کے حیض کے خوف سے قربانی والے دن ہی طواف الافاضہ کے لئے (بیت اللہ) بھیج دیتیں۔ پھر جب وہ عورتیں طوافِ افاضہ کرلیتیں اور انھیں حیض آجاتا تو ان کے پاک ہونے کا انتظار نہ کرتیں بلکہ روانہ ہوجاتی تھیں۔ [الموطأ 1/413 ح956 وسنده صحيح]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 315   
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 331  
´عورت حیض آنے کی صورت میں طواف نہیں کرے گی`
«. . . 387- وبه: أنها قالت: قدمت مكة وأنا حائض ولم أطف بالبيت ولا بين الصفا والمروة، فشكوت ذلك إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: افعلي ما يفعل الحاج، غير أنك لا تطوفي بالبيت حتى تطهري. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے) روایت ہے کہ جب میں مکہ آئی تو میں حیض سے تھی۔ میں نے نہ بیت اللہ کا طواف کیا اور نہ صفا و مروہ کی سعی کی، پھر میں نے اس کی شکایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حاجی جو اعمال کرتا ہے وہ کرو سوائے اس کے کہ پاک ہونے سے پہلے بیت اللہ کا طواف نہ کرنا۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 331]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 1650، من حديث مالك به]

تفقه:
➊ حالت حیض میں بیت اللہ کا طواف (اور صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنا) جائز نہیں ہے۔
➋ اختلافی مسائل میں کتاب وسنت کی طرف رجوع کرنا چاہئے۔
➌ یحییٰ بن یحییٰ کی روایت میں آیا ہے کہ اور صفا ومروہ کے درمیان سعی نہ کرنا، اسے حافظ ابن عبدالبر نے وہم قرار دیا ہے۔ دیکھئے [التمهيد 19/261]
➍ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: حائضہ عورت اگر چاہے تو حج اور عمرے کی لبیک کہے لیکن وہ بیت اللہ کا طواف نہیں کرے گی اور نہ صفا ومروہ کے درمیان سعی کرے گی۔ وہ حج کے تمام ارکان لوگوں کے ساتھ ادا کرے گی سوائے اس کے کہ وہ بیت اللہ کا طواف اور صفا ومروہ کی سعی نہیں کرے گی اور پاک ہونے تک مسجد کے قریب نہیں جائے گی۔ [الموطأ 1/342 ح772 وسنده صحيح]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 387   
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 332  
´جو عورت طواف افاضہ کر چکی ہو اور حیض سے دوچار ہو جائے`
«. . . 388- وبه: عن عائشة أن صفية بنت حيي زوج النبى صلى الله عليه وسلم حاضت، فذكرت ذلك لرسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: أحابستنا هي؟ فقيل: إنها قد أفاضت، قال: فلا إذا. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے) روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی سیدہ صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا کو (حج کے بعد) حیض کی بیماری لاحق ہوئی تو انہوں نے اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا وہ ہمیں روکنا چاہتی ہے؟ پھر کہا گیا کہ انہوں نے طواف اضافہ کر لیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو پھر کوئی بات نہیں (چلو)۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 332]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 1757، من حديث مالك به * وفي رواية يحييٰ بن يحييٰ: فَذَكَرْتُ]

تفقه:
➊ اگر عورت طواف افاضہ (طواف زیارت) کرلینے کے بعد حیض سے بیمار ہو جائے تو اس پر طواف وداع کے لئے رکنا ضروری نہیں ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 388   
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 309  
´اگر حج پر جانے والی عورت کے ہاں بچے کی پیدائش ہو جائے تو . . .`
«. . . 389- وبه: عن أبيه عن أسماء بنت عميس أنها ولدت محمد بن أبى بكر بالبيداء، فذكر ذلك أبو بكر لرسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: مرها فلتغتسل ثم لتهل. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ بیداء کے مقام پر ان کا بیٹا محمد بن ابی بکر پیدا ہوا تو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے حکم دو کہ نہا لے پھر لبیک شروع کر دے۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 309]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه النسائي 127/5 ح 2664 من حديث عبد الرحمن بن القاسم عن مالك به ورواه مسلم 1209/109، من حديث عبدالرحمن بن القاسم عن أبيه عن عائشه به]

تفقه:
➊ حج پر جانے والی جس عورت کے ہاں بچے کی پیدائش ہو تو اسے چاہئے کہ نہا کر سفر شروع کر دے اور چالیس دنوں کا انتظار نہ کرے
➋ اس حدیث سے اشارہ ملتا ہے کہ، محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ صحابی تھے۔
➌ احرام سے پہلے نہانا سنت ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 389   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 126  
´حائضہ عورت بیت اللہ کا طواف نہیں کر سکتی`
«. . . وعن عائشة رضي الله تعالى عنها قالت: لما جئنا سرف حضت فقال النبي صلى الله عليه وآله وسلم: ‏‏‏‏افعلي ما يفعل الحاج غير ان لا تطوفي بالبيت حتى تطهري . . .»
. . . سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب ہم مقام سرف میں آئے تو مجھے ایام ماہواری شروع ہو گئے (میرے بتانے پر) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مناسک حج تم بھی اسی طرح ادا کرو جس طرح دوسرے حاجی کرتے ہیں البتہ طواف بیت اللہ ایام سے فارغ ہو کر نہا دھو کر کرنا . . . [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 126]

لغوی تشریح:
«لَمَّا جِئْنَا» جب ہم آئے۔ یہ دراصل حجۃ الوداع کے سفر کا واقعہ ہے۔ اس وقت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا حالت احرام میں تھیں۔
«سَرِف» سین پر فتحہ اور را کے نیچے کسرہ ہے۔ اور یہ دو اسباب کی وجہ سے غیر منصرف ہے: ایک علمیت، یعنی جگہ کا نام اور دوسرا تانیث۔ مکہ کے قریب ایک جگہ کا نام ہے۔ تقریباً دس میل کے فاصلے پر۔
«حِضْتُ» واحد متکلم کا صیغہ ہے۔ مجھے ایام ماہواری شروع ہو گئے۔

فائدہ:
اس حدیث کی رو سے حائضہ عورت بیت اللہ کا طواف نہیں کر سکتی، اس لیے کہ اکثر علماء کے نزدیک طواف کے لیے پاکیزگی شرط ہے۔ حالت حیض میں عورت چونکہ ناپاک ہو جاتی ہے اور ناپاک عورت کا مسجد میں زیادہ دیر ٹھہرنا بھی جائز نہیں، خانہ کعبہ تو افضل المساجد ہے، اس لیے طواف بدرجہ اولیٰ نہیں کر سکتی بلکہ ایسی حالت میں تو وہ نماز بھی نہیں پڑھ سکتی۔ علاوہ ازیں اب مسعٰی (سعی کرنے کی جگہ) بھی مسجد میں شامل ہو گئی ہے، اس لیے اب سعی بھی نہیں کر سکتی۔ اسی لیے مصنف (بلوغ المرام) نے اس حدیث کو اس بلوغ المرام کے باب «باب الحيض» میں ذکر کیا ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 126   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 592  
´احرام کی اقسام اور صفت کا بیان`
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حجۃ الوداع کے سال نکلے۔ ہم میں سے بعض وہ تھے جنہوں نے عمرہ کے لیے تلبیہ کہا اور ہم میں سے کچھ وہ تھے جنہوں نے حج اور عمرہ کے لیے تلبیہ کہا اور ہم میں سے بعض وہ تھے جنہوں حج کے لیے لبیک پکارا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف حج کے لیے تلبیہ پکارا۔ پھر جنہوں عمرہ کے لیے لبیک کہا تھا وہ حلال ہو گئے اور جنہوں نے حج کے لیے لبیک کہا تھا یا حج اور عمرہ کو جمع کیا تھا وہ حلال نہ ہوئے یہاں تک کہ قربانی کا دن آیا۔ (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/حدیث: 592]
592 لغوی تشریح:
«بَابُ وُجْوهِ الْاِحْرَامِ وَصِفَتِهِ» «الوجوه»، «وجه» کی جمع ہے۔ اور اس سے اقسام احرام مراد ہیں۔ اور وہ تین ہیں، یعنی صرف حج یا محض عمرہ یا دونوں کا احرام باندھنا۔ «صفته» سے مراد محرم کی وہ کیفیت ہے جسے وہ حالت احرام میں اختیار کرتا ہے۔
«خَرَجْنَا» ہم نکلے۔ حج کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں یہ نکلنا ہفتے کے روز نماز ظہر کے بعد تھا جبکہ ذی القعدہ کے پانچ دن ابھی باقی تھے۔
«عَامَ حَجَّةِ الْوَدَاعِ» حجتہ الوداع، دس ہجری میں ہوا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے بعد اس کے علاوہ اور کوئی حج نہیں کیا۔ اور اسے حجۃ الوداع اس لیے کہتے ہیں کہ اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو الوداع کہا تھا۔
«أهَلَّ بِعُمْرَةِ» یعنی صرف عمرے کا احرام باندھا، ایسے شخص کو «متمتع» کہتے ہیں۔
«أهَلَّ بِحَجَّ وَ عُمْرَةِ» حج و عمرہ دونوں کا احرام باندھا۔ ایسے شخص کو «قارن» کہتے ہیں۔ اور جس نے صرف حج کے لیے احرام باندھا ہو اسے «مفرد» کہتے ہیں۔
«اَلْاِهْلَال»، آواز بلند کرنے کو کہتے ہیں اور اس سے مراد احرام باندھنے کے وقت بلند آواز سے تلبیہ کہنا ہے۔
«فَحَلَّ» یعنی وہ حلال ہو گیا۔ اور یہ تب ہوتا ہے جب بیت اللہ کے طواف اور صفا و مروہ کے مابین سعی کرنے کے بعد سر کے بال منڈوائے جاتے ہیں یا کٹوائے جاتے ہیں اور احرام کھول دیا جاتا ہے۔
«يَوْمُ النَّحْرِ» «نحر»، یعنی قربانی کا دن اور وہ دس ذوالحجہ ہوتا ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تنہا حج کا احرام باندھا تھا، یعنی حج مفرد کیا تھا۔ لیکن دوسرے بہت سے دلائل سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ قارن تھے اور حج و عمرے کا اکٹھا احرام باندھا تھا۔ اور یہی بات صحیح ہے تاہم اقسام حج میں سے کون سی قسم افضل ہے اس کی تفصیل آگے آرہی ہے۔ اور جو شخص مفرد ہوتا ہے وہ صرف قربانی کے دن ہی حلال ہوتا ہے، پھر یہ حدیث صحیح بخاری و مسلم کی ان روایات کے بھی مخالف ہے جن میں ہے کہ آپ نے ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جن کے پاس ہدی، یعنی قربانی نہ تھی، انہیں فرمایا تھا کہ تم حج کو عمرہ بنا لو۔ عمرے کو مکمل کر کے حج کا احرام مکہ سے باندھ لو، اسی لیے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ روایت دراصل صرف ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے متعلق ہے جن کے پاس قربانی تھی۔

فائدہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حج کی تین قسمیں ہیں، حج قران، حج تمتع، اور حج افراد۔ ان تینوں میں سے افضل کون سا حج ہے؟ اس کی بابت اختلاف ہے، بعض حج قران کو افضل دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے یہی حج پسند کیا۔ اس میں مشقت بھی زیادہ اٹھانی پڑتی ہے۔ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے زاد المعاد میں اس پر نفیس بحث کی ہے۔ بعض حج تمتع کو افضل کہتے ہیں کہ اس میں سہولت ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرحلے پر اس کی خواہش کا اظہار فرمایا تھا۔ اور بعض حضرات حج افراد کو افضل قرار دیتے ہیں مگر دلائل کے اعتبار سے راجح یہی معلوم ہوتا ہے کہ حج تمتع ہی افضل ہے۔ «والله اعلم»
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 592   
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 305  
´حائضہ بیت اللہ کے طواف کے علاوہ حج کے باقی ارکان پورا کرے گی`
«. . . قَالَ: لَعَلَّكِ نُفِسْتِ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ:" فَإِنَّ ذَلِكِ شَيْءٌ كَتَبَهُ اللَّهُ عَلَى بَنَاتِ آدَمَ، فَافْعَلِي مَا يَفْعَلُ الْحَاجُّ غَيْرَ أَنْ لَا تَطُوفِي بِالْبَيْتِ حَتَّى تَطْهُرِي . . .»
. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شاید تمہیں حیض آ گیا ہے۔ میں نے کہا جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ چیز تو اللہ تعالیٰ نے آدم کی بیٹیوں کے لیے مقرر کر دی ہے۔ اس لیے تم جب تک پاک نہ ہو جاؤ طواف بیت اللہ کے علاوہ حاجیوں کی طرح تمام کام انجام دو . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْحَيْضِ: 305]

فوائد و مسائل:
باب اور حدیث میں مناسبت:
باب دلالت کرتا ہے کہ حائضہ عورت حالت حج میں تمام ارکان کو پورا کرے سوائے نماز اور طواف کے، امام بخاری رحمہ اللہ کی یہ مراد بھی سمجھ میں آتی ہے کہ حائضہ قرآن کی تلاوت کر سکتی ہے، حدیث میں امام بخاری رحمہ اللہ نے دلیل کے طور پر ہرقل کی دلیل پیش کی جس میں آپ علیہ السلام نے قرآن مجید کی آیت لکھ کر ان کو بھیجی لازماً ہرقل کے بادشاہ نے اسے پڑھا اور وہ کفر کی حالت اور ناپاکی کی حالت میں تھا اس سے امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ ثابت کیا کہ کفر اور شرک کی نجاست کے باوجود اسے قرآن کی آیت لکھ کر بھیجیں اس کے برعکس مومنہ حالت حیض میں اگرچہ ظاہری ناپاکی میں ہے مگر کفر اور شرک کی ناپاکی سے بطریق اولیٰ کم ہے کیوں کہ وہاں ناپاکی ایمان نہ ہونے کہ وجہ سے ہے اور یہ ناپاکی عورت کی جسمانی ناپاکی ہو گی تو لہٰذا اس حالت میں بطریق اولیٰ قرآن پڑھنا درست ہو گا۔
◈ علامہ ابن المنیر رحمہ اللہ نے اس حدیث سے جنبی کی تلاوت کا بھی استدلال کیا ہے اور وہ فرماتے ہیں کہ حیض حدث اکبر ہے جنابت سے، لہٰذا جب حیض کی حالت میں قرآن پڑھنا درست ٹھہرا تو کیوں کر حالت جنابت جو کہ حدث اصغر ہے اس میں قرآن پڑھنا درست نہ ٹھہرا؟ ديكهئے: [المتواريص 83]
ان تمام احادیث اور آثار کو جو امام بخاری رحمہ اللہ نے پیش فرمایا ہے یہی مقصود ہے کہ جنبی اور حالت حیض والی عورت قرآن مجید پڑھ سکتی ہے ان کو پڑھنے میں کوئی چیز مانع نہیں رکھتی کیوں کہ ہرقل بادشاہ کافر و مشرک تھا اور وہ جنبی کے حکم میں ہے جب اس کو قرآن لکھ کر بھیجا گیا اور اس کا قرآن پڑھنا درست ٹھرا تو حائضہ اور جنبی کا بھی قرآن پڑھنا درست ٹھرا۔
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«قيل مقصود البخاري ذكر فى هذا الباب من الاحاديث والاثار ان الحيض وما فى معناه من الجنابة لا ينافي جميع العبادات» [فتح الباري ج1، ص537]
مقصود امام بخاری رحمہ اللہ کا ان تمام احادیث اور آثار سے یہ ہے کہ عورت کا حالت حیض میں اور جنبی کو حالت جنابت میں قرآن اور ذکر کرنا سب جائز ہے۔
لہٰذا امام بخاری رحمہ اللہ کا باب قائم فرمانا کہ حائضہ تمام کام کرے حج میں سوائے طواف کے اور احادیث پیش کرنا کہ ہرقل نے قرآن کی آیت پڑھی مناسبت ہم نے بیان کیا کہ ہرقل جنابت کے حکم میں ہے جب وہ تلاوت کر سکتا ہے تو حائضہ کیوں کر نہیں۔
◈ علامہ کرمانی نے ایک اور بھی تطبیق پیش کی ہے کہ عورت کا حیض ہر ماہ آنا ہے اگر وہ قرآن نہ پڑھے گی تو بھول جائے گی۔ تفصيل كے لئے ديكهئے: [الكواكب الدراري شرح صحيح الباري ج2، ص167]
امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد یہ بیان کرنا ہے کہ حائضہ اور جنبی کے لئے قرآن کریم کی تلاوت کی اجازت ہے۔ جیسا کہ:
◈ شیخ عبد الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«اعلم ان البخاري عقد باباً فى صحيحه يدل على انه قائل بجواز قراءة القرآن للجنب والحائضة» [تحفةالاحوذي، ج1، ص124]
جان لو امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں جو باب قائم فرمایا وہ اس مسئلہ پر دلالت ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ قائل ہیں جواز کے کہ جنبی اور حائضہ قرآن کریم کی قرأت کر سکتے ہیں۔
امام بخاری رحمہ اللہ کی نظر میں کوئی ایسی صحیح روایت نہیں جس میں جنبی اور حائضہ کو قرأت سے روکا گیا ہو۔ گو اس سلسلے میں متعدد روایات ہیں اور بعض کی کئی محدثین نے تصحیح بھی کی ہے۔ لیکن صحیح یہی ہے کہ کوئی صحیح روایت اس سلسلے میں نہیں ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ کی نظر میں کوئی روایت درجہ صحت تک نہیں پہنچتی۔ اس لئے انہوں نے جنبی اور حائضہ کے لئے قرأت قرآن کو جائز رکھا۔ ائمہ فقہاء میں سے امام مالک رحمہ اللہ سے دو روایات ہیں۔ جو حائضہ اور نفاس والی خواتین کو قرآن پڑھنے سے روکتی ہیں مگر وہ روایات پایہ ثبوت تک نہیں پہنچتی پہلی روایت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ: «عن ابن عمر رضي الله عنهما عن النبى صلى الله عليه وسلم لا يقرأ الجنب ولا الحائض شيئا من القرآن» [رواه ابوداؤد، رقم 229، سنن الترمذي، رقم: 146]
اس کی سند میں اسماعیل بن عیاش ہے اور وہ ضعیف ہے خصوصاً جب کہ وہ حجازیوں سے روایت کرے اور یہ روایت ان میں سے ہے۔ ديكهئے: [نيل الاوطار، شرح منتقي الاخبار، ج1، ص 293]
دوسری روایت ہے: «لا تقرا الحائض ولا نفساء من القرآن شيئاً» [رواه الدارقطني فى سنة: ج1ص121]
یعنی حائضہ اور نفاس والی قرآن سے کچھ نہ پڑھے اس کی سند میں محمد بن الفضیل ہے جو کہ متروک ہے اور اس کی طرف وضع کرنے کا حکم ہے۔
◈ امام بیہقی فرماتے ہیں:
«هَذَا الْاَثَرُ لَيْسَ بِقوِي» لہٰذا حائضہ اور نفساء کے قرآن نہ پڑھنے کے بارے میں کوئی صریح دلیل نہیں ہے۔ اسی لیے امام شوکانی رحمہ اللہ نے فرمایا:
«والحديث هذا والذي بعده لا يصلحان للاحتجاج بهما على ذالك»
ابن عمر اور جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم کے روایات صحت کے اعتبار سے اس لائق نہیں کہ ان سے احتجاج اخذ کیا جائے۔ لہٰذا حائضہ اور نفساء اگر لمبے عرصے تک قرآن نہیں پڑھیں گی تو وہ بھول جائیں گے۔ ممکن ہے کہ یہ سبب بھی ہو کہ ان کی ممانعت کے لیے کوئی صحیح حکم کسی حدیث سے ثابت نہیں اور جہاں تک تعلق ہے جنبی کا تو اس وقت انتہائی مختصر ہے جیسے ہی اس نے غسل کیا وہ پاک ہو گیا جنبی کے بارے میں قرآن کی تلاوت نہ کرنے کی حدیث مسند ابی یعلی الموصلی میں موجود ہے جو سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جنبی قرآن نہ پڑھے۔ ديكهئے: [مسند ابي يعلي ج1، ص188۔ رجاله موثقون]
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 146   
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 5329  
´اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ عورتوں کے لیے یہ جائز نہیں کہ اللہ نے ان کے رحموں میں جو پیدا کر رکھا ہے اسے وہ چھپا رکھیں کہ حیض آتا ہے یا حمل ہے۔`
«. . . عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: لَمَّا أَرَادَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَنْفِرَ، إِذَا صَفِيَّةُ عَلَى بَابِ خِبَائِهَا كَئِيبَةً، فَقَالَ لَهَا:" عَقْرَى أَوْ حَلْقَى إِنَّكِ لَحَابِسَتُنَا، أَكُنْتِ أَفَضْتِ يَوْمَ النَّحْرِ؟ قَالَتْ: نَعَمْ، قَالَ: فَانْفِرِي إِذًا . . .»
. . . عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (حجۃ الوداع میں) کوچ کا ارادہ کیا تو دیکھا کہ صفیہ رضی اللہ عنہا اپنے خیمہ کے دروازے پر غمگین کھڑی ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ «عقرى» یا (فرمایا راوی کو شک تھا) «حلقى» معلوم ہوتا ہے کہ تم ہمیں روک دو گی، کیا تم نے قربانی کے دن طواف کر لیا ہے؟ انہوں نے عرض کی کہ جی ہاں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر چلو۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الطَّلَاقِ: 5329]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 5329 کا باب: «بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَلاَ يَحِلُّ لَهُنَّ أَنْ يَكْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللَّهُ فِي أَرْحَامِهِنَّ} مِنَ الْحَيْضِ وَالْحَبَلِ:»

باب اور حدیث میں مناسبت:
بظاہر ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت معلوم نہیں ہوتی کیوں کہ باب میں اللہ تعالیٰ کا فرمان نقل کیا گیا ہے کہ عورتوں کے لئے جائز نہیں کہ اللہ نے جو ان کے رحموں میں پیدا کیا ہے وہ اسے چھپائیں جبکہ تحت الباب رحم کے مطابق کوئی الفاظ حدیث میں موجود نہیں ہیں۔

دراصل امام بخاری رحمہ اللہ تحت الباب جو حدیث پیش کی ہے اس پر غور کرنے سے مناسبت کا پتہ چلتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صفیہ رضی اللہ عنہا کا قول ان کے حائضہ ہونے کے بارے میں قبول فرمایا تو اس سے یہ بات واضح ہوئی کہ خاوند کے مقابلے میں بھی رجعت، سقوط عدت اور حمل وغیرہ کے مسائل میں عورت کی بات کو قبول کیا جائے گا،

چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
«والمقصود من الاية أن أمر العدة لما دار على الحيض والطهر، والاطلاع على ذلك يقع من جهة النساء غالباً، جعلت المرأة مؤتمنة على ذالك، قال اسماعيل القاضي دلت الاية أن المرأة المعتدة مؤتمنة على رحمها من الحمل والحيض الا ان تاتي من ذالك لما يعرف كذبها فيه، وقد أخرج الحاكم فى المستدرك من حديث ابي بن كعب أن من الامانة ان ائتمنت المراة على فرجها .» [فتح الباري لابن حجر: 412/9]
آیت مبارکہ سے مقصود یہ ہے کہ عد ت کا معاملہ جب حیض اور طہر پر مبنی ہے اور اس کی اطلاع عورتوں کی جانب سے ہی میسر آتی ہے تو عورت کو (اس خبر پر) امین بنایا گیا ہے، اسماعیل قاضی کا کہنا ہے کہ آیت اسی امر پر دلالت کرتی ہے کہ عدت والی خاتون حمل اور حیض کے ضمن میں امین ہے۔، (یعنی اس کی بات کو قبول کیا جا ئے گا) سوائے اس کے کہ وہ صریحاً جھوٹ کا ارتکاب کرے جو واضح ہو جائے، امام حاکم رحمہ اللہ کی المستدرک میں سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ امانت میں سے (یہ بھی) ہے کہ عورت اپنی شرم گاہ کے بارے میں امین ہو۔

علامہ ابن المنیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«لما رتب النبى صلى الله عليه وسلم على مجرد قول صفية انها حائض تاخيره السفر أخذ منه تعدي الحكم الي الزوج، فتصدق المرأة فى الحيض والحمل باعتبار رجعة الزوج وسقوطها والحاق الحمل به .» [فتح الباري لابن حجر: 412/10]
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجرد سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا کے کہنے پر کہ وہ حیض سے ہیں تاخیر سفر کا ارادہ فرما لیا تو اس سے تعدی الحکم الی الزوج بھی ماخوذ ہو گا تو حیض ہو یا حمل اس میں شوہر کے رجوع کے اعتبار سے خاتون کے دعووں کی تصدیق کرنا ہو گی، بعین اسی طرح سے سقوط کا معاملہ ہو یا حمل کا اس کے ساتھ الحاق کا اس میں بھی اس کی بات کا اعتبار ہو گا۔

صحیح بخاری بحاشیۃ السھارنفوری میں لکھا ہے کہ:
«كئية اي خزينة وهذا موضع الترجمة اذا يفهم منه أظهرت حيضها .» [صحيح بخاري بحاشية السهارنفوري: 761/10]

بدر الدین بن جماعہ رحمہ اللہ باب اور حدیث میں مناسبت دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
عورت کے قول پر استنباط ہو گا حیض اور حمل کے مسائل پر، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجرد صفیہ رضی اللہ عنہا کے قول پر سفر میں تاخیر فرمائی تھی، پس یہ اس بات پر دلالت ہے کہ یقیناًً عورت کی بات عدت حیض اور حمل میں معتبر ہوگی۔

لہٰذا ان تمام تفصیلات سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت یوں بنتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حیض کے بارے میں صفیہ رضی اللہ عنہا کی بات پر سفر میں تاخیر فرمائی، جب حیض کے میں عورت کا قول معتبر ٹھہرا تو یقیناًً حمل، اسقاط اور عدت کے بارے میں بھی اس کے قول کو معتبر ٹھہرایا جائے گا، پس یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت ہو گی۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 118   
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 2952  
´مہینہ کے آخری دنوں میں سفر کرنا`
«. . . أَنَّهَا سَمِعَتْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، تَقُولُ" خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِخَمْسِ لَيَالٍ بَقِينَ مِنْ ذِي الْقَعْدَةِ، وَلَا نُرَى إِلَّا الْحَجَّ فَلَمَّا دَنَوْنَا مِنْ مَكَّةَ أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ لَمْ يَكُنْ مَعَهُ هَدْيٌ إِذَا طَافَ بِالْبَيْتِ، وَسَعَى بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ أَنْ يَحِلَّ، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَدُخِلَ عَلَيْنَا يَوْمَ النَّحْرِ بِلَحْمِ بَقَرٍ، فَقُلْتُ: مَا هَذَا، فَقَالَ: نَحَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَزْوَاجِهِ . . .»
. . . عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ مدینہ سے (حجۃ الوداع کے لیے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہم اس وقت نکلے جب ذی قعدہ کے پانچ دن باقی تھے۔ ہفتہ کے دن ہمارا مقصد حج کے سوا اور کچھ بھی نہ تھا۔ جب ہم مکہ سے قریب ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا کہ جس کے ساتھ قربانی کا جانور نہ ہو جب وہ بیت اللہ کے طواف اور صفا اور مروہ کی سعی سے فارغ ہو جائے تو احرام کھول دے۔ (پھر حج کے لیے بعد میں احرام باندھے) عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ دسویں ذی الحجہ کو ہمارے یہاں گائے کا گوشت آیا، میں نے پوچھا کہ گوشت کیسا ہے؟ تو بتایا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کی طرف سے جو گائے قربانی کی ہے یہ اسی کا گوشت ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ: 2952]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 2952 کا باب: «بَابُ الْخُرُوجِ آخِرَ الشَّهْرِ:»

باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب میں مہینے کے آخری میں سفر کرنے کے متعلق باب قائم فرمایا اور جو حدیث پیش فرمائی ہے اس میں یہ الفاظ ہیں:
«خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم لخمس ليال بقين من ذي القعدة.»
ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس وقت نکلے جب ذی القعدہ کے پانچ روز باقی تھے۔
یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت واقع ہو رہی ہے کیونکہ ذی القعدہ کے آخری پانچ روز میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر کا قصد فرمایا۔ دراصل امام بخاری رحمہ اللہ ان لوگوں کی تردید فرما رہے ہیں جو کہ مہینے کے آخر میں سفر کرنے کو نحوست خیال کرتے ہیں، اس قسم کے مذموم قائدے زمانہ جاہلیت میں لوگوں کے ہوا کرتے تھے، امام بخاری رحمہ اللہ ان کا رد فرما رہے ہیں۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«أي ردا على من كره ذالك من طريق الطيرة، وقد نقل ابن بطال أن أهل الجاهلية كانو يتطيرون أوائل الشهور الأعمال، و يكرهون التصرف فى محاق القمر.» [فتح الباري، ج 6، ص: 141]
یعنی امام بخاری رحمہ اللہ ان کا رد فرما رہے ہیں جو مہینے کے آخری ایام میں سفر کو منحوس خیال کرتے ہیں، اور ابن بطال رحمہ اللہ نے نقل فرمایا کہ اہل جاہلیت یہ خیال کرتے کہ اگر مہینے کے آخر میں آدمی سفر کیلئے روانہ ہوتا ہے تو عمر گھٹ جاتی ہے، اور ہمارا کام گھاٹے میں آ جاتا ہے۔
ابن المنیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«الرد على من يزعم من القائلين متأثير الكواكب أن الحركة آخر الشهر فى محاق القمر مذمومة» [المستواري، ص: 161]
امام بخاری رحمہ اللہ کا یہاں ان لوگوں کا رد مقصود ہے جو مہینے کے آخر میں سفر کرنے کو مذموم قرار دیتے ہیں ستاروں کی حرکت و تاثیر کی وجہ سے۔
(قلت) میں سمجھتا ہوں کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس روایت کی بھی تردید فرمائی ہے جس کا ذکر امام حسان الدین الہندی (المتوفی 975) نے بھی اپنی کتاب «كنز العمال» میں ذکر فرمایا ہے۔ «اقترب آخر أربعا و فى الشهر يوم نحس و مستمر.» [كنز العمال، ج 2، ص: 11، رقم: 931]
یعنی مہینے کے آخری چار دن منحوس ہوا کرتے ہیں۔ (جن کا یہ عقیدہ ہے) امام بخاری رحمہ اللہ ان لوگوں کا رد فرما رہے ہیں۔
ایک اشکال کا جواب:
صحیح بخاری کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سفر پر نکلے اس وقت ذیقعدہ کے پانچ دن رہتے تھے۔ پچیسویں تاریخ کو مدینے سے نکلے اور ذی الحجہ کو چوتھی تاریخ کو مکہ پہنچے۔
اب جو یہاں تعارض اور اشکال کی صورت پیدا ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سفر حج کے لئے ہفتہ کے دن نکلے تھے تو ذیقعدہ کے چار دن باقی بچتے تھے، اس لئے کہ ذی الحجہ کی یکم تاریخ جمعرات کے دن تھی اور وہ وقف عرفہ جمعہ کا روز تھا، اور اگر سفر کی ابتداء جمعرات کو ہوتی ہے تو ذیقعدہ کے چھ روز باقی بچے تھے، سفر کی ابتداء کیلئے جمعہ کا دن تو قطعا نہیں بنتا اسی لئے سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی روایت میں یہ الفاظ ہیں: «صلى الظهر بالمدينة أربعا» اور ظاہر ہے ظہر کی نماز جمعہ کے دن نہیں پڑھی جاتی تو «لخمس بقين» کس طرح صحیح ہو سکتا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس اشکال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
«و أجيب بأن الخروج كان يوم السبت، و انما قالت عائشة: لخمس بقين بناء على العدد، لأن ذوالقعدة كان أوله الأربعا فاتفق أن جاء ناقصا . . .» [فتح الباري، ج 6، ص: 142]
یعنی یوم الخروج ہفتہ کے دن کو بھی سفر کے ایام میں شمار کیا جائے تو بھی معنی ٹھیک ہو سکتے ہیں اگرچہ نکلتے نکلتے دوپہر ہو چکی تھی لیکن تیاری تو پہلے ہی مکمل ہو چکی تھی، گویا انہوں نے جب تیاری مکمل کر لی تو ہفتہ کی شب کو انہوں نے ایام سفر کو شمار کیا تو یہ پانچ دن ہو گئے۔ بالکل اسی طرح سے تطبیق بدرالدین بن جماعۃ رحمہ اللہ نے بھی دی ہے۔ دیکھئے: [مناسبات تراجم البخاري، ص: 87-88]
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 419   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 305  
´حائضہ بیت اللہ کے طواف کے علاوہ حج کے باقی ارکان پورا کرے گی`
«. . . قَالَ: لَعَلَّكِ نُفِسْتِ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ:" فَإِنَّ ذَلِكِ شَيْءٌ كَتَبَهُ اللَّهُ عَلَى بَنَاتِ آدَمَ، فَافْعَلِي مَا يَفْعَلُ الْحَاجُّ غَيْرَ أَنْ لَا تَطُوفِي بِالْبَيْتِ حَتَّى تَطْهُرِي . . .»
. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شاید تمہیں حیض آ گیا ہے۔ میں نے کہا جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ چیز تو اللہ تعالیٰ نے آدم کی بیٹیوں کے لیے مقرر کر دی ہے۔ اس لیے تم جب تک پاک نہ ہو جاؤ طواف بیت اللہ کے علاوہ حاجیوں کی طرح تمام کام انجام دو . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْحَيْضِ: 305]

تشریح:
سید المحدثین حضرت امام بخاری رحمہ اللہ رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ بیان کرنا ہے کہ حائضہ اور جنبی کے لیے قرآن کریم کی تلاوت کی اجازت ہے۔ جیسا کہ حضرت مولانا عبدالرحمن صاحب مبارک پوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«اعلم ان البخاري عقد بابا فى صحيحه يدل على انه قائل بجواز قراءة القرآن للجنب والحائض .» [تحفة الاحوذي، جلد1، ص: 124]
حضرت امام بخاری رحمہ اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی نظر میں کوئی صحیح روایت ایسی نہیں ہے جس میں جنبی اور حائضہ کو قرات سے روکا گیا ہو گو اس سلسلے میں متعدد روایات ہیں اور بعض کی متعدد محدثین نے تصحیح کی ہے لیکن صحیح یہی ہے کہ کوئی صحیح روایت اس سلسلہ میں نہیں ہے جیسا کہ صاحب ایضاح البخاری نے جزء11، ص: 94 پر تحریر فرمایا ہے۔ درجہ حسن تک کی روایات تو موجود ہیں، البتہ ان تمام روایات کا قدر مشترک یہی ہے کہ جنبی کو قرات قرآن کی اجازت نہیں ہے۔ لیکن چونکہ امام بخاری رحمہ اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی نظر میں کوئی روایت درجہ صحت تک پہنچی ہوئی نہیں ہے۔ اس لیے انہوں نے جنبی اور حائضہ کے لیے قرات قرآن کو جائز رکھا ہے۔ ائمہ فقہاء میں سے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے دو روایتیں ہیں۔ ایک میں جنبی اور حائضہ ہر دو کو قرات کی اجازت ہے اور طبری، ابن منذر اور بعض حضرات سے بھی یہ اجازت منقول ہے۔

مولانا مبارک پوری قدس سرہ فرماتے ہیں:
«تمسك البخاري ومن قال بالجواز غيره كالطبري و ابن المنذر وداود بعموم حديث كان يذكر الله على كل احيانه لان الذكر اعم ان يكون بالقرآن اوبغيره الخ» [تحفة الاحوذي، ج1، ص: 124]
یعنی امام بخاری رحمہ اللہ رحمۃ اللہ علیہ اور آپ کے علاوہ دیگر مجوزین نے حدیث «يذكرالله على كل احيانه» (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہر حال میں اللہ کا ذکر فرماتے تھے) سے استدلال کیا ہے۔ اس لیے کہ ذکر میں تلاوت قرآن بھی داخل ہے۔ مگر جمہور کا مذہب مختار یہی ہے کہ جنبی اور حائضہ کو قرات قرآن جائز نہیں۔ تفصیل کے لیے تحفۃ الاحوذی کا مقام مذکورہ مطالعہ کیا جائے۔

صاحب ایضاح البخاری فرماتے ہیں کہ درحقیقت ان اختلافات کا بنیادی منشاء اسلام کا وہ توسع ہے جس کے لیے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات میں بھی فرمایا تھا اور ایسے ہی اختلافات کے متعلق آپ نے خوش ہو کر پیشین گوئی کی تھی کہ میری امت کا اختلاف باعث رحمت ہو گا۔ [ايضاح البخاري، ج2، ص: 32]
(امت کا اختلاف باعث رحمت ہونے کی حدیث صحیح نہیں)۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 305   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 391  
´طواف افاضہ کے بعد عورت کے حائضہ ہونے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: ام المؤمنین صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا کو حیض آ گیا ہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شاید وہ ہمیں روک لے گی، کیا اس نے تم لوگوں کے ساتھ طواف (افاضہ) نہیں کیا تھا؟ انہوں نے عرض کیا: کیوں نہیں (ضرور کیا تھا)، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو پھر تو نکلو ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الحيض والاستحاضة/حدیث: 391]
391۔ اردو حاشیہ:
➊ طواف افاضہ سے مراد دس ذوالحجہ کا طواف ہے جو حاجی پر فرض ہے۔ افاضہ کے معنی واپسی کے ہیں۔ چونکہ یہ عرفات سے واپسی کے بعد ہوتا ہے، اس لیے اسے طواف افاضہ کہا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اس کو طواف زیارت اور طواف فرض بھی کہا جاتا ہے۔
➋ حج کی ادائیگی کے بعد گھر کو واپسی سے قبل بھی طواف کرنا ضروری ہے، اسے طواف وداع کہا جاتا ہے، مگر جو عورت طواف افاضہ کر چکی ہو، اس کے بعد اس کو حیض شروع ہو جائے اور گھر واپسی کی تاریخ آ جائے تو وہ معذور ہے، بغیر طواف و داع کیے گھر واپس جا سکتی ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 391   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 243  
´حائضہ کو احرام کے غسل کے وقت چوٹی کھولنے کا حکم۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حجۃ الوداع کے سال نکلے تو میں نے عمرہ کا احرام باندھا، پھر میں مکہ پہنچی تو حائضہ ہو گئی، تو میں نہ خانہ کعبہ کا طواف کر سکی، نہ صفا و مروہ کے بیچ سعی، تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی شکایت کی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنا سر کھول لو، کنگھی کر لو، حج کا احرام باندھ لو، اور عمرہ چھوڑ دو، چنانچہ میں نے (ایسا ہی) کیا، تو جب ہم نے حج پورا کر لیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے عبدالرحمٰن بن ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ تنعیم بھیجا (وہاں سے میں عمرہ کا احرام باندھ کر مکہ آئی اور) میں نے عمرہ کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ تیرے اس عمرہ کی جگہ ہے (جو حیض کی وجہ سے تجھ سے چھوٹ گیا تھا)۔ ابوعبدالرحمٰن (امام نسائی رحمہ اللہ) کہتے ہیں: ہشام بن عروہ کے واسطے سے مالک کی یہ حدیث غریب ہے، مالک سے یہ حدیث صرف اشہب نے ہی روایت کی ہے۔ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 243]
243۔ اردو حاشیہ:
➊ امام صاحب کا مقصود یہ ہے کہ اشہب نے (اس حدیث میں امام مالک کا استاذ ابن شہاب زہری کے ساتھ ہشام بن عروہ کو بھی بتلایا ہے جب کہ عام رواۃ اس روایت میں امام مالک کا استاذ صرف زہری ہی کو بتاتے ہیں۔ جب کسی راوی کی تائید کوئی اور ساتھی نہ کرے تو اس کی روایت کو غریب کہا جاتا ہے۔
➋ حیض کی حالت میں چونکہ بیت اللہ میں داخلہ منع ہے، لہٰذا حائضہ عورت کو طواف منع ہے اور سعی چونکہ طواف کے تابع ہے، اس لیے وہ بھی منع ہے۔
➌ تنعیم مکہ سے مدینہ منورہ کے راستے پر قریب ترین حل ہے، یعنی یہاں حرم ختم ہوتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے لیے یہ خصوصی حکم فرمایا کہ وہ تنعیمم سے احرام باندھ کر آجائیں اور عمرہ کر لیں کیونکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا حیض کی وجہ سے عمرہ رہ گیا تھا۔ یہ اجازت ہر شخص کے لیے نہیں ہے کہ وہ تنعیم سے احرام باندھ کر آ جائے اور عمرہ کر لے جیسا کہ آفاق سے جانے والے بہت سے حاجی ایسا کرتے ہیں اور بعض علماء اس کے جواز کا فتویٰ بھی دیتے ہیں۔ لیکن یہ جواز محل نظر ہے کیونکہ اس کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ صحیح بات یہی ہے کہ دوبارہ عمرے کے لیے میقات پر جا کر وہاں سے احرام باندھ کر آنا ضروری ہے۔ یا پھر مذکورہ حدیث کے پیش نظر تنعیم سے احرام باندھنے کی یہ اجازت صرف ان خواتین کے لیے ہے جو مخصوص ایام کی وجہ سے عمرہ نہ کرسکی ہوں۔ واللہ أعلم۔
➍ چونکہ حج کا احرام کئی دن جاری رہتا ہے، لہٰذا مینڈھیاں کھول کر اچھی طرح غسل کرنے کا حکم دیا تاکہ بعد میں تنگی نہ ہو۔ اس غسل کا حیض سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ صفائی کے لیے ہوتا ہے اور یہ ہر محرم کے لیے مستحب ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 243   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 291  
´محرم عورت جب حائضہ ہو جائے تو کیا کرے؟`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے، ہمیں صرف حج کرنا تھا، جب مقام سرف آیا تو میں حائضہ ہو گئی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آئے، اور اس وقت میں رو رہی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا بات ہے؟ حائضہ ہو گئی ہو؟ میں نے عرض کیا: ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ ایسی چیز ہے جسے اللہ عزوجل نے آدم زادیوں کے لیے مقدر کر دیا ہے، تو وہ سارے کام کرو جو حاجی کرتا ہے سوائے اس کے کہ خانہ کعبہ کا طواف نہ کرنا، نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کی طرف سے گائے کی قربانی کی۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 291]
291۔ اردو حاشیہ:
➊ چونکہ حیض کی حالت میں، عورت کے لیے مسجد میں ٹھہرنا منع ہے اور طواف مسجد میں ہوتا ہے، لہٰذا طواف سے روکا گیا ہے۔ سعی بھی طواف کے تابع ہے، وہ بھی منع ہے۔
➋ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی عورتوں کی طرف سے گائے ذبح کرنا نفل ہو گا کیونکہ حج افراد کرنے والے پر قربانی فرض نہیں۔ ممکن ہے، بعض نے حج کے ساتھ عمرہ بھی کیا ہو۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 291   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 349  
´حیض کی شروعات کا بیان اور کیا حیض کو نفاس کہہ سکتے ہیں؟`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے، ہمارا مقصد صرف حج کرنا تھا، جب ہم مقام سرف میں پہنچے تو میں حائضہ ہو گئی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آئے اور میں رو رہی تھی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا بات ہے؟ کیا تم حائضہ ہو گئی ہو؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ ایک ایسا معاملہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے آدم زادیوں پر مقدر کر دیا ہے ۱؎، اب تم وہ سارے کام کرو، جو حاجی کرتا ہے، البتہ خانہ کعبہ کا طواف نہ کرنا۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الحيض والاستحاضة/حدیث: 349]
349۔ اردو حاشیہ:
بَنَاتِ آدَمَ سے استدلال ہے کہ حیض شروع ہی سے عورتوں پر مقرر ہے جب کہ حضرت ابن معسود رضی اللہ عنہ سے موقوفاً (ان کا قول) منقول ہے کہ حیض بنی اسرائیل کی عورتوں پر مسلط کیا گیا تھا۔ دیکھیے: [فتح الباري: 519/1]
ان کے مابین تطبیق یوں ممکن ہے کہ ابتدا تو حضرت حوا علیہاالسلام ہی سے ہوئی مگر بنی اسرائیل کے دور میں کچھ اضافہ کر دیا گیا اور یہ کوئی بعید نہیں۔ واللہ أعلم۔
«أَنَفِسْتِ» اس جملے میں نفاس سے حیض مراد ہے۔ تشبیہا نفاس کہا گیا۔ باب کا دوسرا جزو یہاں سے ثابت ہوا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 349   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3000  
´تنعیم سے عمرہ کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہم حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (مدینہ سے) اس حال میں نکلے کہ ہم ذی الحجہ کے چاند کا استقبال کرنے والے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے جو عمرہ کا تلبیہ پکارنا چاہے، پکارے، اور اگر میں ہدی نہ لاتا تو میں بھی عمرہ کا تلبیہ پکارتا، تو لوگوں میں کچھ ایسے تھے جنہوں نے عمرہ کا تلبیہ پکارا، اور کچھ ایسے جنہوں نے حج کا، اور میں ان لوگوں میں سے تھی جنہوں نے عمرہ کا تلبیہ پکارا، ہم نکلے یہاں تک کہ مکہ آئے، اور اتفاق ایسا ہوا کہ عرفہ کا دن آ گیا، اور میں حیض سے تھی، عمر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 3000]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
 
(1)
تنعیم ایک مقام ہے جو مکہ سے قریب ترین ہے۔
آج کل اسے مسجد عائشہ کہتے ہیں۔

(2)
نبی اکرمﷺ تیرہ ذوالحجہ کو رمی جمرات سے فارغ ہوکر منی سے روانہ ہوئے اور وادی ابطح یعنی خیف بنی کنانہ میں ٹھہرے۔
اسی کو وادئ خصب بھی کہتے ہیں۔
رسول اللہﷺ نے اس دن ظہر عصر مغرب اور عشاء کی نمازیں اسی مقام پر ادا کیں۔
اور عشاء کے بعد کچھ آرام فرما کر مکہ مکرمہ تشریف لے گئےاور طواف وداع ادا فرمایا۔ (الرحیق المختوم ص: 620)

(3)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے عمرہ کا احرام باندھا تھا لیکن عذر حیض کی وجہ سے عمرہ کیے بغیر حج کا احرام باندھنا پڑا۔
اس طرح کی صورت حال میں عمرے کے اعمال اد ا کیے بغیر حج اور عمرہ دونوں ادا سمجھے جاتے ہیں۔

(4)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی خواہش تھی کہ وہ باقاعدہ عمرہ بھی ادا کریں چنانچہ رسول اللہﷺ نے انہیں ان کے بھائی کے ساتھ عمرے کے لیے بھیج دیا۔
یہ رسول اللہﷺ کا اپنی زوجہ محترمہ سے حسن سلوک کا اظہار تھا۔

(5)
تنعیم یا مسجد عائشہ کوئی میقات نہیں ہے۔
رسول اللہﷺ نے صرف حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی دل جوئی کے لیے ان کو وہاں سے احرام باندھ کر آ کر عمرہ کرنے کی اجازت دی تھی۔
اس سے زیادہ سے زیادہ ایسی ہی (حائضہ)
عورتوں کے لیے عمرے کی اجازت ثابت ہوتی ہے نہ کہ مطلقاً ہر شخص کے لیے وہاں سے احرام باندھ کر بار بار عمرہ کرنے کی جیسا کہ بہت سے لوگ وہاں ایسا کرتے ہیں اور اسے چھوٹا عمرہ قرار دیتے ہیں۔
یہ رواج یا استدلال بے بنیاد ہے۔

(6)
حج کے بعد عمرہ کرنے سے حج تمتع نہیں بنتا بلکہ حج سے پہلے عمرہ کرنے سے حج تمتع بنتا ہے۔
پہلے عمرے کی وجہ سے قربانی دی گئی اس دوسرے عمرے کی وجہ سے کوئی قربانی نہیں دی گئی۔
نہ اس کا متبادل فدیہ روزوں کی صورت میں ادا کیا گیا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3000   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث641  
´حائضہ عورت غسل کیسے کرے؟`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب وہ حالت حیض میں تھیں تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: اپنے بال کھول لو، اور غسل کرو ۱؎، علی بن محمد نے اپنی حدیث میں کہا: اپنا سر کھول لو۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/أبواب التيمم/حدیث: 641]
اردو حاشہ:
(1)
سر کھولنے سے مراد یہ ہے کہ گوندھے ہوئے بال کھول کر سر دھویا جائے۔
یہ حکم غسل جنابت میں نہیں ہے۔ (دیکھیے حدیث: 604، 603)

(2)
بعض حضرات صحیح مسلم میں وارد الفاظٰ (فَأَنْقُضُهُ لِلْحَيْضَةِ وَالْجَنَابَةِ؟ فَقَالَ لَا) (صحيح مسلم، الحيض، باب حكم ضفائر المغتسلة، حديث: 330)
سے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ عورت کے لیے غسل حیض میں بالوں کا کھولنا ضروری نہیں ہے لیکن صاحب عون اور شیخ البانی ؒ نے صراحت کی ہے کہ صحیح مسلم کے ایک طریق میں (الحیضة)
کا جو اضافہ ہے وہ شاذ ہے اصل روایت (الحیضة)
 کے بغیر ہی محفوظ ہے۔ دیکھیے: (عون المعبود، الطھارة، باب المرأۃ ھل تنقص شعرھا عند الغسل، والصحیحة للألبانی، حدیث: 188)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 641   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2964  
´حج افراد کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج افراد کیا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 2964]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
حج کی تین قسمیں ہیں ان میں سے جس طریقے سے بھی حج ادا کیا جائے درست ہے۔

(ا)
حج افراد:
اس میں حج کی نیت سے احرام باندھا جاتا ہے۔
مکہ شریف پہنچ کر جو طواف کرتے ہیں وہ طواف قدوم کہلاتا ہے پھر احرام کھولے بغیر مکہ میں رہتے ہیں۔
یوم الترویہ (8 ذی الحجہ)
کو اسی احرام کے ساتھ منی کی طرف روانہ ہوجاتے ہیں۔
وہاں ظہر سے لیکر اگلے دن (9 ذوالحجہ)
کی فجر تک پانچ نمازیں ادا کرتے ہیں۔
سورج نکلنے کے بعد عرفات کی طرف روانہ ہوتے ہیں۔
وہاں ظہر کے وقت ظہر اور عصر کی نمازیں جمع اور قصر کرکے ادا کرتے ہیں پھر سورج غروب ہونے تک ذکر الہی اور دعا ومناجات میں مشغول رہتے ہیں۔
یہ وقوف (عرفات میں ٹھرنا)
حج کا سب سے اہم رکن ہے۔
سورج غروب ہونے پر مزدلفہ کی طرف روانہ ہوتے ہیں وہاں پہنچ کر مغرب اور عشاء کی نمازیں جمع اور قصر کرکے ادا کرتے ہیں۔
رات مزدلفہ میں گزار کر صبح (دس ذوالحجہ کو)
فجر کی نماز ادا کرکے وہاں ٹھرے رہتے ہیں۔
کافی روشنی ہوجانے پر سورج نکلنے سے پہلے منی کی طرف چلتے ہیں۔
منی پہنچ کر سورج نکلنے کے بعد بڑے جمرے کو سات کنکریاں مارتے ہیں قربانی کرتے ہیں اور سر کے بال اتروا کر احرام کھول دیتے ہیں اور اسی دن سورج غروب ہونے سے پہلے پہلے طواف کعبہ کرتے اور رات منی میں واپس آ کر گزارتے ہیں۔
گیارہ بارہ اور تیرہ ذوالحجہ کو منی میں ٹھرتے ہیں۔
ان تین دنوں میں روزانہ زوال کے بعد تینوں جمرات کو سات سات کنکریاں مارتے ہیں۔
اگر کوئی شخص گیارہ اور بارہ تاریخ کو کنکریاں مار کر واپس آنا چاہے تو آ سکتا ہے۔
حج افراد میں قربانی کرنا ضروری نہیں ثواب کا باعث ہے۔

(ب)
حج قران کا طریقہ یہ ہے کہ میقات سے حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھتے ہیں۔
مکہ پہنچ کر طواف اور سعی کرتے ہیں۔
یہ عمرہ بن جاتا ہے لیکن اس کے بعد بال اتروا کر احرام نہیں کھولتے بلکہ احرام میں ہی رہتے ہیں۔
اس طرح آٹھ ذوالحجہ کو منی کی طرف روانہ ہوجاتے ہیں اور وہ تمام کام کرتےہیں جو حض افراد میں بیان ہوئے۔
حج قران کرنے والے میقات سے یا وطن سے قربانی کے جانور ساتھ لیکرآتے ہیں۔

(ج)
حج تمتع کا طریقہ یہ ہے کہ میقات سے صرف عمرے کا احرام باندھتے ہیں مکہ شریف پہنچ کر طواف اور سعی کرکے بال چھوٹے کرا کے احرام کھول دیتے ہیں پھر آٹھ ذوالحجہ کو مکہ ہی سے احرام باندھ کر حج کےتمام ارکان ادا کرتےہیں۔
اور دس ذی الحجہ کو قربانی دیتے ہیں۔
جو قربانی کی طاقت نہ رکھتا ہو وہ دس روزے رکھ لے جن میں سے تین روزے ایام حج میں رکھنا ضروری ہیں۔

(2)
مدینہ منورہ سے روانہ ہوتے وقت رسول اللہﷺ کا ارادہ حج مفرد کا تھا۔
بعد میں رسول اللہﷺ نے ارادہ بدل دیا۔
ام المومنین رضی اللہ عنہ کے ارشاد کا یہی مطلب ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2964   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 820  
´حج افراد کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج افراد ۱؎ کیا۔ [سنن ترمذي/كتاب الحج/حدیث: 820]
اردو حاشہ:
" 1؎ حج کی تین قسمیں ہیں:
افراد،
قِران اورتمتع،
حج افرادیہ ہے کہ حج کے مہینوں میں صرف حج کی نیت سے احرام باندھے،
اور حج قِران یہ ہے کہ حج اورعمرہ دونوں کی ایک ساتھ نیت کرے،
اورقربانی کا جانورساتھ،
جب کہ حج تمتع یہ ہے کہ حج کے مہینے میں میقات سے صرف عمرے کی نیت کرے پھرمکہ میں جاکرعمرہ کی ادائیگی کے بعداحرام کھول دے اورپھرآٹھویں تاریخ کومکہ مکرمہ ہی سے نئے سرے سے احرام باندھے۔
اب رہی یہ بات کہ آپ ﷺ نے کون سا حج کیا تھا؟توصحیح بات یہ ہے کہ آپ نے قِران کیاتھا،
تفصیل کے لیے حدیث رقم 822 کا حاشہ دیکھیں۔
نوٹ:

(نبی اکرمﷺ کا حج،
حج قران تھا،
اس لیے صحت سند کے باوجود متن شاذ ہے)

"
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 820   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 945  
´حائضہ عورت حج کے کون کون سے مناسک ادا کرے؟`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہما کہتی ہیں کہ مجھے حیض آ گیا چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے طواف کے علاوہ سبھی مناسک ادا کرنے کا حکم دیا ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الحج/حدیث: 945]
اردو حاشہ: 1؎:
بخاری ومسلم کی روایت میں ہے' أهلي بالحج واصنعي ما يصنع الحاج غير أن لا تطوفي بالبيت' یعنی حج کا تلبیہ پکارو اوروہ سارے کام کرو جو حاجی کرتا ہے سوائے خانہ کعبہ کے طواف کے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 945   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1743  
´حائضہ عورت حج کا تلبیہ پکارے اور احرام باندھ لے۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا (ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیوی) کو مقام شجرہ میں محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کی (ولادت کی) وجہ سے نفاس آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ (اسماء سے کہو کہ) وہ غسل کر لے پھر تلبیہ پکارے۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1743]
1743. اردو حاشیہ: مقام شجرہ سےمراد ذوالحلیفہ یا البیداء ہے جو اہل مدینہ کی میقات ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1743   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1777  
´حج افراد کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج افراد کیا ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1777]
1777. اردو حاشیہ:
➊ حج کے لیے احرم اورنیت کے تین انداز مشروع ہیں:ایک یہ کہ انسان احرام باندھتے ہوئے صرف اور صرف حج کی نیت کرے۔ اس بصورت میں انسان اعمال حج مکمل ہونے تک احرام ہی میں رہتا ہے۔اسے حج افراد (ہمزہ کے کسرہ کے ساتھ) کہتے ہیں یعنی مفرد حج۔دوسری صورت یہ ہے کہ حج اور عمرہ کی اکٹھی نیت ہو۔ اس صورت میں حاجی پہلے عمر ہ کرتاہے اس کے بعد احرام کی حالت میں رہتا ہے یہاں تک کہ حج کے اعمال پورے کر لے۔ اس کو حج قران (قاف کی کسرہ کے ساتھ) کہتے ہیں یعنی حج اور عمرے کو ملا کر ادا کیا۔ تیسری صورت یہ ہے کہ حاجی پہلے عمرہ کی نیت سے احرام باندھے۔مکہ پہنچ کر عمرہ کےاعمال مکمل کرکے حلال ہوجائے اور پھر 8ذوالحجہ کو دوبارہ حج کے لیے احرام باندھے اور حج کے اعمال پورے کرے۔ اس نوعیت کو حج تمتع کہتے ہیں یعنی ایک ہی سفر میں حج کے ساتھ عمرے کا فائدہ بھی حاصل کر لیا۔سب سے افضل حج تمتع ہی ہے۔اگر قربانی ساتھ لے کر جائے تو قران ہو گا۔ او رحج افراد بھی ہر طرح سے جائز ہے۔(قربانی سمیت یا قربانی کے بغیر)رسول اللہﷺ کا حج قران تھا جبکہ صحابہ میں افراج والے بھی تھے اور تمتع والے بھی۔
➋ اس معنی کی احادیث میں نبی ﷺ کے ابتدائے عمل کا بیان ہے۔ قران کی نیت آپ نے بعد میں فرمائی تھی۔کچھ محدثین اس طرح کہتے ہیں کہ آپ شروع ہی سے قارن تھے۔مگر چونکہ «قارن» ‏‏‏‏ کو اجازت ہوتی ہے کہ کسی وقت «لبیک بحجة» کسی وقت «لبیک تعمرۃ» ‏‏‏‏ اور کسی وقت «لبیک بحجة و عمرة» ‏‏‏‏ کہے اس لیے صحابہ کرام نے نبیﷺ کی زبان سے جو سنا بیان کیا۔ اس میں تعارض والی کوئی بات نہیں۔(مرعاۃ المفاتیح –شرح حدیث:2569]
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1777