سنن ابن ماجه
كِتَابُ الْأَضَاحِي -- کتاب: قربانی کے احکام و مسائل
2. بَابُ : الأَضَاحِيُّ وَاجِبَةٌ هِيَ أَمْ لاَ
باب: قربانی واجب ہے یا نہیں؟
حدیث نمبر: 3125
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ ، عَنْ ابْنِ عَوْنٍ ، قَالَ: أَنْبَأَنَا أَبُو رَمْلَةَ ، عَنْ مِخْنَفِ بْنِ سُلَيْمٍ ، قَالَ: كُنَّا وَقُوفًا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَرَفَةَ، فَقَالَ:" يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ عَلَى كُلِّ أَهْلِ بَيْتٍ فِي كُلِّ عَامٍ أُضْحِيَّةً وَعَتِيرَةً، أَتَدْرُونَ مَا الْعَتِيرَةُ؟ هِيَ الَّتِي يُسَمِّيهَا النَّاسُ الرَّجَبِيَّةَ".
مخنف بن سلیم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ عرفہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھڑے تھے کہ اسی دوران آپ نے فرمایا: لوگو! ہر گھر والوں پر ہر سال ایک قربانی ۱؎ اور ایک «عتیرہ» ہے، تم جانتے ہو کہ «عتیرہ» کیا ہے؟ یہ وہی ہے جسے لوگ «رجبیہ» کہتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الضحایا 1 (2788)، سنن الترمذی/الأضاحي 19 (1518)، سنن النسائی/الفرع والعتیرة (4229)، (تحفة الأشراف: 11244)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/215، 5/76) (حسن)» ‏‏‏‏ (سند میں ابو رملہ مجہول راوی ہے، لیکن شاہد کی تقویت سے حسن ہے، تراجع الألبانی: رقم: 264)

وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ایک قربانی پورے گھر والوں کی طرف سے کافی ہو گی۔
۲؎: «عتیرہ»: وہ بکری ہے جور جب میں ذبح کی جاتی تھی، ابوداود کہتے ہیں کہ یہ حکم منسوخ ہے۔
۳؎: رجب کی قربانی پہلے شروع اسلام میں واجب تھی پھر منسوخ ہو گئی، دوسری حدیث میں ہے کہ «عتیرہ» کی قربانی کوئی چیز نہیں ہے، اب صرف عید کی قربانی ہے، ا س حدیث سے بھی عیدالاضحی میں قربانی کا وجوب نکلتا ہے، اور قائلین وجوب اس آیت سے بھی دلیل لیتے ہیں «فصل لربك وانحر» (سورة الكوثر: 2) کیونکہ امر وجوب کے لئے ہے، مخالف کہتے ہیں کہ آیت کا یہ مطلب ہے کہ نحر (ذبح) اللہ کے لئے کر یعنی اللہ کے سوا اور کسی کے لئے نحر (ذبح) نہ کر جیسے مشرکین بت پوجنے والے بتوں کے نام پرنحر (ذبح) کیا کرتے تھے، اس سے منع کیا، اس سے عید کی قربانی کا وجوب نہیں معلوم ہوا، ایک اور جندب کی حدیث ہے جو آگے آئے گی، وہ بھی وجوب کی دلیل ہے، اور عدم وجوب والے جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث سے دلیل لیتے ہیں، اس میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی پہلے کی اپنی امت کے ان لوگوں کی طرف سے جنہوں نے قربانی نہیں کی، ایک مینڈھے کی (احمد، ابوداود، ترمذی) لیکن یہ عدم وجوب پر دلالت نہیں کرتا اس لئے کہ مراد اس میں وہ لوگ ہیں جن کو قربانی کی قدرت نہیں ان پر وجوب کا کوئی قائل نہیں۔

قال الشيخ الألباني: حسن
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3125  
´قربانی واجب ہے یا نہیں؟`
مخنف بن سلیم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ عرفہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھڑے تھے کہ اسی دوران آپ نے فرمایا: لوگو! ہر گھر والوں پر ہر سال ایک قربانی ۱؎ اور ایک «عتیرہ» ہے، تم جانتے ہو کہ «عتیرہ» کیا ہے؟ یہ وہی ہے جسے لوگ «رجبیہ» کہتے ہیں۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كِتَابُ الْأَضَاحِي/حدیث: 3125]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
کتاب الذبائح کے دوسرے باب میں وارد حدیث میں عتیرہ کی مشروعیت کی نفی کی گئی ہے۔
بعض علماء نے ان دونوں کو اس انداز سے جمع کیا ہے کہ عید کی قربانی واجب ہے۔
اور رجب کی قربانی نفل یعنی (لاعتيرة)
کوئی عتیرہ نہیں کا مطلب یہ ہے کہ عتیرہ واجب نہیں اور زیر مطالعہ حدیث کا مطلب ہوگا کہ عتیرہ مشروع ہے۔
بہت سے علماء نے عتیرہ کو منسوخ قراردیا ہے۔

(2)
مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قراردیا ہےاور مزید لکھا ہے کہ سنن النسائي اور سنن ابي داؤد کی احادیث اس سے کفایت کرتی ہیں۔ دیکھیے تحقیق و تخریج حدیث ہذا۔
علاوہ ازیں دیگر محققین نے اسے حسن قراردیا ہے لہٰذا مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود دیگر شواہد کی بناء پر قابل عمل اور قابل حجت ہے۔
تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعة الحديثية مسندالإمام أحمد: 29/ 419، 420 وصحيح سنن إبي داؤد (مفصل)
للألباني، حديث: 2287)

   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3125   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1518  
´قربانی سے متعلق ایک اور باب۔`
مخنف بن سلیم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ میدان عرفات میں ٹھہرے ہوئے تھے، میں نے آپ کو فرماتے سنا: لوگو! ہر گھر والے پر ہر سال ایک قربانی اور «عتيرة» ہے، تم لوگ جانتے ہو «عتيرة» کیا ہے؟ «عتيرة» وہ ہے جسے تم لوگ «رجبية» کہتے ہو۔ [سنن ترمذي/كتاب الأضاحى/حدیث: 1518]
اردو حاشہ:
وضاحت: 1 ؎:
جو بعد میں منسوخ ہوگیا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1518   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2788  
´قربانی کے وجوب کا بیان۔`
مخنف بن سلیم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم (حجۃ الوداع کے موقع پر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عرفات میں ٹھہرے ہوئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگو! (سن لو) ہر سال ہر گھر والے پر قربانی اور «عتیرہ» ہے ۱؎ کیا تم جانتے ہو کہ «عتیرہ» کیا ہے؟ یہ وہی ہے جس کو لوگ «رجبیہ» کہتے ہیں۔‏‏‏‏ ابوداؤد کہتے ہیں: «عتیرہ» منسوخ ہے یہ ایک منسوخ حدیث ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب الضحايا /حدیث: 2788]
فوائد ومسائل:

اس حدیث سے(عتیرة) کا جواز معلوم ہوتا ہے۔
جب کہ آگے حدیث (2831) سے اس کے جواز کی نفی ہوتی ہے۔
اور یہی بات راحج ہے۔


اس حدیث سے بظاہر قربانی کا وجوب ثابت ہوتا ہے۔
لیکن دوسرے دلائل سے اس کا استحباب واستنان معلوم ہوتا ہے۔
اس لئے محدثین نے ان سارے دلائل کوسامنے رکھتے ہوئے ہوئے فیصلہ کیا ہے۔
کہ قربانی سنت موکدہ ہے۔
یعنی ایک اہم اور موکد حکم ہے۔
لیکن فرض نہیں۔
تاہم استطاعت کے باوجود اس سنت موکد ہ سے گریز کسی طرح بھی صحیح نہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2788