سنن ابن ماجه
كتاب الصيد -- کتاب: شکار کے احکام و مسائل
18. بَابُ : الطَّافِي مِنْ صَيْدِ الْبَحْرِ
باب: پانی پر تیرنے والے مردہ سمندری شکار کا بیان۔
حدیث نمبر: 3247
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمٍ الطَّائِفِيُّ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ أُمَيَّةَ ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا أَلْقَى الْبَحْرُ أَوْ جَزَرَ عَنْهُ فَكُلُوهُ، وَمَا مَاتَ فِيهِ فَطَفَا فَلَا تَأْكُلُوهُ".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس جانور کو سمندر نے کنارے پر ڈال دیا ہو یا پانی کم ہو جانے سے وہ مر جائے تو اسے کھاؤ، اور جو سمندر میں مر کر اوپر آ جائے اسے مت کھاؤ۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الأطعمة 36 (3815)، (تحفة الأشراف: 2657) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (سند میں یحییٰ بن سلیم طائفی ضعیف راوی ہیں)

قال الشيخ الألباني: ضعيف
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3815  
´مر کر پانی کے اوپر آ جانے والی مچھلی کا کھانا کیسا ہے؟`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سمندر جس مچھلی کو باہر ڈال دے یا جس سے سمندر کا پانی سکڑ جائے تو اسے کھاؤ، اور جو اس میں مر کر اوپر آ جائے تو اسے مت کھاؤ۔‏‏‏‏ ابوداؤد کہتے ہیں: اس حدیث کو سفیان ثوری، ایوب اور حماد نے ابو الزبیر سے روایت کیا ہے، اور اسے جابر پر موقوف قرار دیا ہے اور یہ حدیث ایک ضعیف سند سے بھی مروی ہے جو اس طرح ہے: «عن ابن أبي ذئب عن أبي الزبير عن جابر عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم» ۔ [سنن ابي داود/كتاب الأطعمة /حدیث: 3815]
فوائد ومسائل:
فائدہ: یہ روایت سندا ضعیف ہے۔
تاہم از خود مرنے والی مچھلی حلال ہے۔
جیسا کہ صحیح بخاری ومسلم میں جیش الخبط کا معروف واقعہ مذکور ہے۔
کہ حضرت ابو عبیدہ کی زیر قیادت اس لشکر کو ابتداء میں انتہائی مشقت کا سامنا کرنا پڑا۔
بڑی سخت بھوک برداشت کرنی پڑی۔
مگر بعد میں انھیں سمندر کے کنارے بہت بڑی مچھلی مل گئی۔
جس کوو ہ دو ہفتے تک کھاتے رہے۔
اور بعض لوگ اس کا کچھ حصہ بچا کر مدینے بھی لے آئے۔
جو رسول اللہ ﷺ کی خواہش پر آپﷺ کو بھی پیش کیا گیا۔
اور آپﷺنے اسے تناول فرمایا۔
(صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4360 ومابعد) آگے حدیث 3840 میں تفصیل آرہی ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3815