صحيح البخاري
كِتَاب الْبُيُوعِ -- کتاب: خرید و فروخت کے مسائل کا بیان
49. بَابُ مَا ذُكِرَ فِي الأَسْوَاقِ:
باب: بازاروں کا بیان۔
حدیث نمبر: 2124
قَالَ: وَحَدَّثَنَا ابْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" نَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُبَاعَ الطَّعَامُ إِذَا اشْتَرَاهُ حَتَّى يَسْتَوْفِيَهُ".
کہا کہ ہم سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے یہ بھی بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری طرح اپنے قبضہ میں کرنے سے پہلے اسے بیچنے سے منع فرمایا۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 499  
´قبضے کے بغیر مال بیچنا جائز نہیں ہے`
«. . . 238- وبه: عن عبد الله بن عمر أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: من ابتاع طعاما فلا يبعه حتى يستوفيه. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ سیدنا عباللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص کھانا (غلہ) خریدے تو جب تک اسے پورا اپنے قبضے میں نہ لے لے آگے نہ بیچے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 499]

تخریج الحدیث: [واخرجه البخاري 2126 ومسلم 1526/32 من حديث مالك به]
تفقہ:
➊ غلے کی خرید و فروخت پورا قبٖضہ لئے بغیر جائز نہیں ہے۔
➋ نیز دیکھئے ح 29، 287
➌ جمیل بن عبدالرحمٰن المؤذن نے سعید بن المسیب رحمہ اللہ سے کہا: حکومت کی طرف سے لوگوں کے لئے جو غلے مقرر ہیں، میں انہیں جار (نامی ایک مقام) میں خرید لیتا ہوں پھر میں چاہتا ہوں کہ (قبضے کے بغیر) میعاد لگا کر اس غلے کو لوگوں کے ہاتھ بیچ دوں۔ سعید رحمہ اللہ نے کہا: کیا تم چاہتے ہو کہ لوگوں کو وہ غلہ بیچجو جس کو تم نے (بغیر قبضے کے) خریدا ہے؟
اس نے کہا: جی ہاں، تو سعید (بن المسیب رحمہ اللہ) نے اسے منع کر دیا۔ [الموطا 642/2 ح1371 وسنده حسن]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 238   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2229  
´بغیر ناپ تول کے اندازے سے بیچنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم لوگ سواروں سے گیہوں (غلہ) کا ڈھیر بغیر ناپے تولے اندازے سے خریدتے تھے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس کے بیچنے سے اس وقت تک منع کیا جب تک کہ ہم اسے اس کی جگہ سے منتقل نہ کر دیں۔ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2229]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اس سے معلوم ہوا کہ غلہ اندازے سے خریدنا درست ہے، لیکن ماپ کر لینا بہتر ہے۔

(2)
چیز کو خریدنے کے بعد اپنی ملکیت میں لے لینا اور وہاں سے اٹھا لینا چاہیے، بعد میں فروخت کرنا چاہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2229   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3494  
´قبضہ سے پہلے غلہ بیچنا منع ہے۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں لوگ اٹکل سے بغیر ناپے تولے (ڈھیر کے ڈھیر) بازار کے بلند علاقے میں غلہ خریدتے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بیچنے سے منع فرمایا جب تک کہ وہ اسے اس جگہ سے منتقل نہ کر لیں (تاکہ مشتری کا پہلے اس پر قبضہ ثابت ہو جائے پھر بیچے)۔ [سنن ابي داود/كتاب الإجارة /حدیث: 3494]
فوائد ومسائل:
(جزافاً) کے معنی ہیں کہ اس کا کیل (ناپ) یا وزن متعین نہ ہوتا تھا۔
بلکہ ویسے ہی ایک ڈھیر کا سودا کرلیا جاتا تھا۔
اور پھر اسے ویسے ہی تولے بغیر اور قبضے میں لیے ڈھیر ہی کی شکل میں فروخت کردیا جاتا تھا۔
اسے بعض افراد نے جائز قرار دیا ہے۔
لیکن احادیث کے الفاظ سے تو یہی معلوم ہوتا ہے۔
کہ غلہ ناپ تول کرلیا جائے۔
ڈھیری کی شکل میں اسے قبضے میں لئے بغیر ناپ تول کے بغیر بیچنا جائز نہیں۔
اور ڈھیری کا قبضہ یہی ہے۔
کہ اسے دوسری جگہ منتقل کردیا جائے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3494   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2124  
2124. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ اس بات سے منع کرتے تھے کہ غلہ جس وقت خریدا جائے اسی وقت وہیں فروخت کردیا جائے یہاں تک کہ اس پر پوراپورا قبضہ نہ کر لیا جائے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2124]
حدیث حاشیہ:
ان جملہ احادیث مرویہ میں کسی نہ کسی پہلو سے آنحضرت ﷺ یا صحابہ کرام ؓ کا بازاروں میں آنا جانا مذکور ہوا ہے۔
نمبر2119 میں بازاروں میں اور مسجد میں نماز باجماعت کے ثواب کے فرق کا ذکر ہے۔
حدیث نمبر2122میں آنحضرت ﷺ کا بازار قینقاع میں آنا اور وہاں سے واپسی پر حضرت فاطمہ ؓ کے گھر پر جانا مذکو رہے جہاں آپ ﷺ نے اپنے پیارے نواسے حضرت حسن ؓ کو پیار کیا، اور ان کے لیے دعائے خیر فرمائی۔
الغرض بازاروں میں آنا جانا، معاملات کرنا یہ کوئی مذموم امر نہیں ہے۔
ضروریات زندگی کے لیے بہرحال ہر کسی کو بازار جائے بغیر گزارہ نہیں، حضرت امام بخاری ؒ کا مقصد اسی امر کا بیان کرنا ہے۔
کیوں کہ بیع کا تعلق زیادہ تر بازاروں ہی سے ہے۔
اسی سلسلے کے مزید بیانات آگے آرہے ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2124   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2124  
2124. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ اس بات سے منع کرتے تھے کہ غلہ جس وقت خریدا جائے اسی وقت وہیں فروخت کردیا جائے یہاں تک کہ اس پر پوراپورا قبضہ نہ کر لیا جائے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2124]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث میں صحابۂ کرام ؓ کا بازار میں آنا جانا مذکورہے۔
اگرچہ اس میں بازار کی صراحت نہیں ہے لیکن اکثر طور پر غلہ وغیرہ بازار اور منڈی ہی میں فروخت ہوتا ہے،اس لیے بازار جانے کا جواز ثابت ہوا۔
(2)
یہ بھی پتہ چلا کہ خریدی ہوئی چیز کو قبضے سے پہلے فروخت کرنا جائز نہیں۔
ہم اس کی وضاحت آئندہ کریں گے۔
بإذن الله. (3)
کفار مکہ نے رسول اللہ ﷺ پر متعدد جاہلانہ اعتراضات کیے۔
ان میں سے ایک یہ تھا کہ رسول کم ازکم کوئی مافوق البشر ہستی ہونی چاہیے جو حوائج بشریہ (انسانی ضروریات)
سے بے نیاز ہو۔
کم از کم دنیا کے دھندوں سے آزاد اور تارک دنیا قسم کے لوگوں سے ہو۔
بازاروں میں آنا جانا، کسب معاش کے لیے دوڑ دھوپ کرنا ان کے نزدیک شان نبوت کے خلاف تھا۔
قرآن کریم نے ان کا اعتراض بایں الفاظ نقل کیا ہے:
﴿مَالِ هَـٰذَا الرَّسُولِ يَأْكُلُ الطَّعَامَ وَيَمْشِي فِي الْأَسْوَاقِ﴾ یہ کیسا رسول ہے جو کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتاپھرتا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے اس اعتراض کا جواب بایں اسلوب دیا ہے:
﴿وَمَا أَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنَ الْمُرْسَلِينَ إِلَّا إِنَّهُمْ لَيَأْكُلُونَ الطَّعَامَ وَيَمْشُونَ فِي الْأَسْوَاقِ﴾ ہم نے آپ سے پہلے جتنے بھی رسول بھیجے وہ سب کھانا کھاتے اور بازاروں میں چلتے پھرتے تھے۔
یعنی ان کفار مکہ کو خوب علم ہے کہ سیدنا نوح،سیدنا ابراہیم، سیدنا موسیٰ اور سیدنا عیسیٰ ؑ سب کے سب انسان ہی تھے۔
ضروریات زندگی اور حوائج بشریہ ان کے ساتھ لگی ہوئی تھیں اور وہ اپنی زندگی کی بقا کے لیے کھاتے پیتے بھی تھے اور کسب معاش یا خریدوفروخت کی خاطر وہ بازاروں میں چلتے پھرتے بھی تھے،ان سب باتوں کے باوجود لوگ انھیں رسول تسلیم کرتے تھے۔
(4)
اس سے معلوم ہوا کہ کھانا پینا بازاروں میں چلنا پھرنا بزرگی یا نبوت کے منافی نہیں۔
بازاروں میں جس چیز کی ممانعت ہے اس کا ذکر آئندہ باب میں آرہا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2124