صحيح البخاري
كِتَاب الْبُيُوعِ -- کتاب: خرید و فروخت کے مسائل کا بیان
54. بَابُ مَا يُذْكَرُ فِي بَيْعِ الطَّعَامِ وَالْحُكْرَةِ:
باب: اناج کا بیچنا اور احتکار کرنا کیسا ہے؟
حدیث نمبر: 2131
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، أَخْبَرَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنِ الْأَوْزَاعِيِّ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:"رَأَيْتُ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ الطَّعَامَ مُجَازَفَةً، يُضْرَبُونَ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَبِيعُوهُ، حَتَّى يُؤْوُوهُ إِلَى رِحَالِهِمْ".
ہم سے اسحاق بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو ولید بن مسلم نے خبر دی، انہیں اوزاعی نے، انہیں زہری نے، انہیں سالم نے، اور ان سے ان کے باپ نے بیان کیا، کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ان لوگوں کو دیکھا جو اناج کے ڈھیر (بغیر تولے ہوئے محض اندازہ کر کے) خرید لیتے ان کو مار پڑتی تھی۔ اس لیے کہ جب تک اپنے گھر نہ لے جائیں نہ بچیں۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 499  
´قبضے کے بغیر مال بیچنا جائز نہیں ہے`
«. . . 238- وبه: عن عبد الله بن عمر أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: من ابتاع طعاما فلا يبعه حتى يستوفيه. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ سیدنا عباللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص کھانا (غلہ) خریدے تو جب تک اسے پورا اپنے قبضے میں نہ لے لے آگے نہ بیچے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 499]

تخریج الحدیث: [واخرجه البخاري 2126 ومسلم 1526/32 من حديث مالك به]
تفقہ:
➊ غلے کی خرید و فروخت پورا قبٖضہ لئے بغیر جائز نہیں ہے۔
➋ نیز دیکھئے ح 29، 287
➌ جمیل بن عبدالرحمٰن المؤذن نے سعید بن المسیب رحمہ اللہ سے کہا: حکومت کی طرف سے لوگوں کے لئے جو غلے مقرر ہیں، میں انہیں جار (نامی ایک مقام) میں خرید لیتا ہوں پھر میں چاہتا ہوں کہ (قبضے کے بغیر) میعاد لگا کر اس غلے کو لوگوں کے ہاتھ بیچ دوں۔ سعید رحمہ اللہ نے کہا: کیا تم چاہتے ہو کہ لوگوں کو وہ غلہ بیچجو جس کو تم نے (بغیر قبضے کے) خریدا ہے؟
اس نے کہا: جی ہاں، تو سعید (بن المسیب رحمہ اللہ) نے اسے منع کر دیا۔ [الموطا 642/2 ح1371 وسنده حسن]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 238   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2229  
´بغیر ناپ تول کے اندازے سے بیچنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم لوگ سواروں سے گیہوں (غلہ) کا ڈھیر بغیر ناپے تولے اندازے سے خریدتے تھے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس کے بیچنے سے اس وقت تک منع کیا جب تک کہ ہم اسے اس کی جگہ سے منتقل نہ کر دیں۔ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2229]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اس سے معلوم ہوا کہ غلہ اندازے سے خریدنا درست ہے، لیکن ماپ کر لینا بہتر ہے۔

(2)
چیز کو خریدنے کے بعد اپنی ملکیت میں لے لینا اور وہاں سے اٹھا لینا چاہیے، بعد میں فروخت کرنا چاہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2229   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3494  
´قبضہ سے پہلے غلہ بیچنا منع ہے۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں لوگ اٹکل سے بغیر ناپے تولے (ڈھیر کے ڈھیر) بازار کے بلند علاقے میں غلہ خریدتے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بیچنے سے منع فرمایا جب تک کہ وہ اسے اس جگہ سے منتقل نہ کر لیں (تاکہ مشتری کا پہلے اس پر قبضہ ثابت ہو جائے پھر بیچے)۔ [سنن ابي داود/كتاب الإجارة /حدیث: 3494]
فوائد ومسائل:
(جزافاً) کے معنی ہیں کہ اس کا کیل (ناپ) یا وزن متعین نہ ہوتا تھا۔
بلکہ ویسے ہی ایک ڈھیر کا سودا کرلیا جاتا تھا۔
اور پھر اسے ویسے ہی تولے بغیر اور قبضے میں لیے ڈھیر ہی کی شکل میں فروخت کردیا جاتا تھا۔
اسے بعض افراد نے جائز قرار دیا ہے۔
لیکن احادیث کے الفاظ سے تو یہی معلوم ہوتا ہے۔
کہ غلہ ناپ تول کرلیا جائے۔
ڈھیری کی شکل میں اسے قبضے میں لئے بغیر ناپ تول کے بغیر بیچنا جائز نہیں۔
اور ڈھیری کا قبضہ یہی ہے۔
کہ اسے دوسری جگہ منتقل کردیا جائے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3494   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2131  
2131. حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں اندازے سے غلہ خریدنے والوں کو اس بات پر پٹتے دیکھا ہے کہ وہ اس پر قبضہ کر کے اپنے گھروں میں لانے سے پہلے اسے(آگے)فروخت کریں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2131]
حدیث حاشیہ:
(1)
لغوی طور پر اشیائے ضرورت کو فروخت سے روک لینا احتکار کہلاتا ہے۔
شرعی طورپر احتکار یہ ہے کہ نرخ بڑھنے کے انتظار میں اشیائے ضرورت کو روک لینا،انھیں فروخت نہ کرنا جبکہ عوام کو ان کی شدید ضرورت ہو اور جمع کرنے والا اس سے مستغنی ہو۔
لیکن اگر کوئی شخص اس غلے کو ان ایام میں خرید کر ذخیرہ کرے جن میں یہ سستا ہویا اگر کوئی مہنگائی کے وقت میں اپنی ضرورت پوری کرنے کے لیے خریدتا ہے یا اسے خرید کر فوراً فروخت کردیتا ہے تو یہ احتکار نہیں اور نہ ایسا کرنا حرام ہی ہے۔
(2)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث سے احتکار کا جواز پیش کیا ہے کیونکہ مذکورہ حدیث میں غلے کو اپنے گھر یا دکان میں منتقل کرنے سے پہلے فروخت کرنے سے منع کیا گیا ہے۔
اگر احتکار حرام ہوتا تو آپ یہ حکم نہ دیتے بلکہ خریدتے ہی فروخت کرنے کا حکم دے دیتے۔
شاید ان کے نزدیک وہ حدیث ثابت نہیں ہے جسے امام مسلم نے بیان کیا ہے کہ ذخیرہ اندوزی وہی کرتا ہے جو گناہ گار ہے۔
(صحیح مسلم، المساقاة، حدیث: 4122(1605)
نیز حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جس شخص نے لوگون پر ان کا غلہ ذخیرہ کرلیا اللہ تعالیٰ اسے کوڑھ اور افلاس میں مبتلا کردے گا۔
"(سنن ابن ماجہ،التجارات،حدیث: 2155)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کی سند کو حسن قرار دیا ہے۔
(فتح الباري: 4/440)
لیکن غلے کو صرف گھر منتقل کرنا شرعی احتکار نہیں،اس لیے امام بخاری رحمہ اللہ کے بارے میں یہ کہنا زیادہ مناسب ہے کہ ان کے نزدیک ذخیرہ اندوزی مخصوص حالات میں، مخصوص شرائط کے ساتھ منع ہے،اس کی مذمت میں متعدد احادیث مروی ہیں۔
موجودہ حالات میں ذخیرہ اندوزی ایک سنگین جرم ہے جبکہ لوگ اس کے ضرورت مندہوں اور وہ قحط سالی کا شکار ہوں۔
اگر لوگوں کو اشیائے ضرورت بہ سہولت دستیاب ہیں تو غلہ خرید کر ذخیرہ کر لینا منع نہیں۔
والله أعلم.
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2131