سنن ابن ماجه
كتاب الطب -- کتاب: طب کے متعلق احکام و مسائل
3. بَابُ : الْحِمْيَةِ
باب: (کھانے پینے میں) پرہیز اور احتیاط کا بیان۔
حدیث نمبر: 3443
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ , قَالَ: حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل , حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ , عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ صَيْفِيٍّ مِنْ وَلَدِ صُهَيْبٍ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ جَدِّهِ صُهَيْبٍ , قَالَ: قَدِمْتُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَيْنَ يَدَيْهِ خُبْزٌ وَتَمْرٌ , فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" ادْنُ فَكُلْ" , فَأَخَذْتُ آكُلُ مِنَ التَّمْرِ , فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" تَأْكُلُ تَمْرًا وَبِكَ رَمَدٌ؟" , قَالَ: فَقُلْتُ إِنِّي أَمْضُغُ مِنْ نَاحِيَةٍ أُخْرَى , فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
صہیب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ کے سامنے روٹی اور کھجور رکھی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قریب آؤ اور کھاؤ، میں کھجوریں کھانے لگا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم کھجور کھا رہے ہو حالانکہ تمہاری آنکھ آئی ہوئی ہے، میں نے عرض کیا: میں دوسری جانب سے چبا رہا ہوں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا دیے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 4964، ومصباح الزجاجة: 1194)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/61) (حسن)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: حسن
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3443  
´(کھانے پینے میں) پرہیز اور احتیاط کا بیان۔`
صہیب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ کے سامنے روٹی اور کھجور رکھی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قریب آؤ اور کھاؤ، میں کھجوریں کھانے لگا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم کھجور کھا رہے ہو حالانکہ تمہاری آنکھ آئی ہوئی ہے، میں نے عرض کیا: میں دوسری جانب سے چبا رہا ہوں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا دیے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطب/حدیث: 3443]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
مہمان کو کھانے کی پیش کش کی جائے۔
تو اسے چاہیے کہ تکلف نہ کرے۔
قبول کرلے۔
ہاں اگر اس کو ضرورت نہیں ہے تو اور بات ہے۔

(2)
بیمار کو کھانے پینے میں احتیاط سے کام لینا چاہیے۔

(3)
بزرگ شخصیت سے بھی مزاح کی بات کی جاسکتی ہے۔
بشرط یہ کہ ادب واحترام کی حدود سے تجاوز نہ ہو۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3443