صحيح البخاري
كِتَاب الْبُيُوعِ -- کتاب: خرید و فروخت کے مسائل کا بیان
55. بَابُ بَيْعِ الطَّعَامِ قَبْلَ أَنْ يُقْبَضَ، وَبَيْعِ مَا لَيْسَ عِنْدَكَ:
باب: غلے کو اپنے قبضے میں لینے سے پہلے بیچنا اور ایسی چیز کو بیچنا جو تیرے پاس موجود نہیں۔
حدیث نمبر: 2136
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" مَنِ ابْتَاعَ طَعَامًا فَلَا يَبِعْهُ حَتَّى يَسْتَوْفِيَهُ"، زَادَ إِسْمَاعِيلُ: مَنِ ابْتَاعَ طَعَامًا فَلَا يَبِعْهُ حَتَّى يَقْبِضَهُ.
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے نافع نے، ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جو شخص بھی جب غلہ خریدے تو جب تک اسے پوری طرح قبضہ میں نہ لے لے، نہ بیچے۔ اسماعیل نے یہ زیادتی کی ہے کہ جو شخص کوئی غلہ خریدے تو اس پر قبضہ کرنے سے پہلے نہ بیچے۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 499  
´قبضے کے بغیر مال بیچنا جائز نہیں ہے`
«. . . 238- وبه: عن عبد الله بن عمر أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: من ابتاع طعاما فلا يبعه حتى يستوفيه. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ سیدنا عباللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص کھانا (غلہ) خریدے تو جب تک اسے پورا اپنے قبضے میں نہ لے لے آگے نہ بیچے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 499]

تخریج الحدیث: [واخرجه البخاري 2126 ومسلم 1526/32 من حديث مالك به]
تفقہ:
➊ غلے کی خرید و فروخت پورا قبٖضہ لئے بغیر جائز نہیں ہے۔
➋ نیز دیکھئے ح 29، 287
➌ جمیل بن عبدالرحمٰن المؤذن نے سعید بن المسیب رحمہ اللہ سے کہا: حکومت کی طرف سے لوگوں کے لئے جو غلے مقرر ہیں، میں انہیں جار (نامی ایک مقام) میں خرید لیتا ہوں پھر میں چاہتا ہوں کہ (قبضے کے بغیر) میعاد لگا کر اس غلے کو لوگوں کے ہاتھ بیچ دوں۔ سعید رحمہ اللہ نے کہا: کیا تم چاہتے ہو کہ لوگوں کو وہ غلہ بیچجو جس کو تم نے (بغیر قبضے کے) خریدا ہے؟
اس نے کہا: جی ہاں، تو سعید (بن المسیب رحمہ اللہ) نے اسے منع کر دیا۔ [الموطا 642/2 ح1371 وسنده حسن]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 238   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2229  
´بغیر ناپ تول کے اندازے سے بیچنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم لوگ سواروں سے گیہوں (غلہ) کا ڈھیر بغیر ناپے تولے اندازے سے خریدتے تھے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس کے بیچنے سے اس وقت تک منع کیا جب تک کہ ہم اسے اس کی جگہ سے منتقل نہ کر دیں۔ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2229]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اس سے معلوم ہوا کہ غلہ اندازے سے خریدنا درست ہے، لیکن ماپ کر لینا بہتر ہے۔

(2)
چیز کو خریدنے کے بعد اپنی ملکیت میں لے لینا اور وہاں سے اٹھا لینا چاہیے، بعد میں فروخت کرنا چاہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2229   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3494  
´قبضہ سے پہلے غلہ بیچنا منع ہے۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں لوگ اٹکل سے بغیر ناپے تولے (ڈھیر کے ڈھیر) بازار کے بلند علاقے میں غلہ خریدتے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بیچنے سے منع فرمایا جب تک کہ وہ اسے اس جگہ سے منتقل نہ کر لیں (تاکہ مشتری کا پہلے اس پر قبضہ ثابت ہو جائے پھر بیچے)۔ [سنن ابي داود/كتاب الإجارة /حدیث: 3494]
فوائد ومسائل:
(جزافاً) کے معنی ہیں کہ اس کا کیل (ناپ) یا وزن متعین نہ ہوتا تھا۔
بلکہ ویسے ہی ایک ڈھیر کا سودا کرلیا جاتا تھا۔
اور پھر اسے ویسے ہی تولے بغیر اور قبضے میں لیے ڈھیر ہی کی شکل میں فروخت کردیا جاتا تھا۔
اسے بعض افراد نے جائز قرار دیا ہے۔
لیکن احادیث کے الفاظ سے تو یہی معلوم ہوتا ہے۔
کہ غلہ ناپ تول کرلیا جائے۔
ڈھیری کی شکل میں اسے قبضے میں لئے بغیر ناپ تول کے بغیر بیچنا جائز نہیں۔
اور ڈھیری کا قبضہ یہی ہے۔
کہ اسے دوسری جگہ منتقل کردیا جائے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3494   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2136  
2136. حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: جو شخص غلہ خریدے تو جب تک اسے پورا وصول نہ کر لے اسے آگے فروخت نہ کرے۔ (راوی حدیث) اسماعیل بن ابی اویس نے یہ اضافہ کیا ہے۔ جو کوئی غلہ خریدے اسے آگے فروخت نہ کرے حتی کہ اسے اپنے قبضے میں لے لے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2136]
حدیث حاشیہ:
(1)
ان دونوں احادیث میں خریدی ہوئی چیز کو قبضے میں لینے سے قبل آگے فروخت کرنے کی ممانعت کا ذکر ہے۔
جو چیز موجود نہ ہو اسے فروخت کرنے کی ممانعت کا ذکر ان احادیث میں نہیں ہے لیکن یہ ممانعت پہلے جز میں داخل ہے کیونکہ جو چیز پاس موجود نہ ہو اسے فروخت کرنا قبضے سے پہلے فروخت کے مترادف ہے۔
حضرت حکیم بن حزام ؓ کے واقعے میں اس کی صراحت ہے۔
انھوں نے ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ سے عرض کی:
اللہ کے رسول! میرے پاس ایک شخص آتا ہے اور وہ مجھ سے کوئی چیز خریدنا چاہتا ہے جو میرے پاس نہیں ہے،میں اس کا سودا کرلیتا ہوں اور اسے وہ چیز بازار سے خرید کر دے دیتا ہوں؟آپ نے فرمایا:
جو چیز تمھارے پاس موجود نہ ہو اسے فروخت نہ کرو۔
(مسند أحمد: 402/3)
اس سے معلوم ہوا کہ ایسی چیز کی خریدو فروخت جائز نہیں جو فروخت کے وقت بیچنے والےکی ملکیت میں نہ ہو۔
(2)
واضح رہے کہ بعض اوقات مشتری کوئی چیز خریدتا ہے اور اس کا وزن کرنے کے بعد بائع کے پاس ہی رہنے دیتا ہے،یعنی اپنے قبضے میں نہیں لیتا،ایسی چیز کی آگے فروخت جائز نہیں۔
امام بخاری نے اسماعیل بن ابو اویس کے اضافے سے اسی نکتے کی طرف اشارہ کیا ہے۔
(فتح الباري: 442/4)
حضرت ابن عباس ؓسے مروی حدیث میں چونکہ غلے کا ذکر تھا،اس لیے انھوں نے قیاس کیا کہ ہر چیز حکم میں غلے کی مانند ہے۔
دراصل انھیں حضرت حکیم بن حزام ؓ سے مروی حدیث کا علم نہ تھا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
جب تم کوئی چیز خریدو تو اسے قبضے میں لینے سے پہلے فروخت نہ کرو۔
(مسند أحمد: 402/3)
اسی طرح حضرت زید بن ثابت ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سودے کو ایسی جگہ فروخت کرنے سے منع فرمایا جہاں اسے خریدا گیا ہو یہاں تک کے لوگ اسے اپنے ٹھکانوں میں لے جائیں۔
(المستدرك للحاکم: 40/2)
بہر حال خریدی ہوئی چیز غلہ ہویا اس کے علاوہ کوئی اور چیز،قبضے سے پہلے اسےآگے فروخت کرنا منع ہے۔
ہماے ہاں کھل بنولہ خرید کر اسے کارخانے ہی میں رہنے دیا جاتا ہے۔
مالک کو قیمت ادا کرکے اس سے پرچی لےلی جاتی ہے، پھر اس پرچی کو آگے فروخت کردیا جاتا ہے ایسا کرنا شرعاً ناجائز ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2136