سنن ابن ماجه
كتاب الطب -- کتاب: طب کے متعلق احکام و مسائل
42. بَابُ : مَنْ كَانَ يُعْجِبُهُ الْفَأْلُ وَيَكْرَهُ الطِّيَرَةَ
باب: نیک فال لینا اچھا ہے اور بدفالی مکروہ۔
حدیث نمبر: 3539
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ , عَنْ سِمَاكٍ , عَنْ عِكْرِمَةَ , عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا عَدْوَى وَلَا طِيَرَةَ , وَلَا هَامَةَ وَلَا صَفَرَ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چھوت چھات ۱؎ اور بدشگونی کوئی چیز نہیں ہے، اسی طرح الو اور ماہ صفر کی نحوست کوئی چیز نہیں ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 6126، ومصباح الزجاجة: 1234)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/269، 328) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: چھوت چھات یعنی بیماری خود سے متعدی نہیں ہے، بلکہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے حکم سے اور اس کی بنائی ہوئی تقدیر سے ہوتا ہے، البتہ بیماریوں سے بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے اسباب کو اپنانا مستحب ہے، الو کو دن میں دکھائی نہیں دیتا ہے، تو وہ رات کو نکلتا ہے، اور اکثر ویرانوں میں رہتا ہے، عرب لوگ اس کو منحوس جانتے تھے، اور بعض یہ سمجھتے تھے کہ مقتول کی روح الو بن کر پکارتی پھرتی ہے، جب اس کا بدلہ لے لیا جاتا ہے تو وہ اڑ جاتا ہے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خیال کو باطل قرار دیا، اسی طرح صفر کے مہینے کو عوام اب تک منحوس جانتے ہیں، صفر کے مہینے کے پہلے تیرہ دن جس میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے تھے ان ایام کو تیرہ تیزی کہتے ہیں، ان میں عورتیں کوئی بڑا کام جیسے شادی بیاہ وغیرہ کرنے نہیں دیتیں،یہ بھی لغو ہے، صفر کا مہینہ اور مہینوں کی طرح ہے، کچھ فرق نہیں ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3539  
´نیک فال لینا اچھا ہے اور بدفالی مکروہ۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چھوت چھات ۱؎ اور بدشگونی کوئی چیز نہیں ہے، اسی طرح الو اور ماہ صفر کی نحوست کوئی چیز نہیں ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الطب/حدیث: 3539]
اردو حاشہ:
فوائد  ومسائل:

(1)
مریض سے صحت مند کو بیماری نہیں لگتی۔

(2)
موجودہ دور کے سائنس دان اورڈاکٹر جراثیم کے ذریعے سے بیماری پھیلنے کے قائل ہیں۔
لیکن ساتھ ہی یہ بھی تو مانتے ہیں۔
کہ جراثیم تبھی اثر کرسکتے ہیں۔
جب جسم میں موجود قوت مدافعت کمزور ہوجائے۔
گویا اصل سبب جراثیم کا وجود نہیں بلکہ جسم کے حفاظتی نظام کی کمزوری ہے۔

(3)
اہل عرب کا ایک غلط خیال یہ بھی تھا کہ اگر مقتول کے خون کا بدلہ نہ لیاجائے تو اس کی کھوپڑی سے ایک الو نکل کر چیختا ہے۔
جب بدلہ لے لیا جائے تو مقتول کی روح کو تسکین ہوتی جاتی ہے اور الو خاموش ہوجاتا ہے۔
حدیث اس توہم کی تردید کرتی ہے۔

(4)
صفر سے مراد محرم کے بعد والا مہینہ ہے۔
جسے نامبارک سمجھا جاتا تھا۔
حقیقت میں کوئی دن مہینہ یا عدد منحوس نہیں ہوتا۔

(5)
عربوں کا ایک غلط خیال یہ بھی تھا کہ بھوک پیٹ میں موجود ایک کیڑے کی وجہ سے لگتی ہے۔
اسے صفر کہتے ہیں یہ بھی ان کا ایک وہم تھا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3539